حائض کے احکام
سوال۸۴۔ کیا امام رضا علیہ السلام کی طیب و طاہر ضریح کے اطراف ایوانوں میں ، کسی خاتون کا حالت حیض میں داخل ہونا جائز ہے ؟ گرچہ وہ قبر اقدس کو دیکھے اور ضریح کے نزدیک ہو؟
جواب :کوئی اشکال نہیں لیکن حرم میں داخل نہ ہو۔
جواب :کوئی اشکال نہیں لیکن حرم میں داخل نہ ہو۔
جواب : جائز ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ جماع نہ کرے ۔
جواب: تقریباً جنین کی لانہ سازی کے تین ہفتے کے بعد جفت تشکیل پاتا ہے ، اس مرحلہ میں جفت کا وظیفہ رحم کی ضخیم شدہ دیوار سے، بند ناف کے ذریعہ ، خوراک اور آکسیجن، حاصل کرنا ہے ۔اسی طرح جنین کی حیاتی فعالیت سے حاصل شدہ ، کاربنک گیس کو ماںکے خون میں منتقل کرتا ہے اور ا س بطن مادر میں موجود جفت کا دوسرا وظیفہ، مادری ماہا رمون یاپرجسترون کو مترشح کرنا ہے ، جس سے ماہواری بند ہوجاتی ہے ۔ د:اگر حاملہ نہ ہوسکے، تورحم کی پر خون اور ضخیم شدہ دیوار گرنا اوربہنا شروع ہوجاتی ہے ، جو ماہواری کے نام سے مشہور ہے ، خون بند ہوجانے کے بعد ، رحم دوبارہ نئے طریقہ سے استقرار حمل کے لئے تیار ہوجاتا ہے یعنی پُرخون اور ضخیم ہونا شروع ہوجاتا ہے لہٰذا جب ایک عورت حاملہ ہو جاتی ہے ، تو ہارمون کے مترشح ہونے کی وجہ سے جس کا تذکرہ گزرچکا ہے، معمولاً اس عورت کو ماہواری نہیں آتی ، ( نہ یہ کہ وہ خون بچہ کی غذا بن جاتا ہے ) یعنی حقیقت میں خونریزی اور ماہواری ہوتی ہی نہیں ہے جو بچہ کی خوراک بن سکے ۔ ھ: یہ تمام مذکورہ مراحل ، مختلف ہارمون کے مترشح ہونے کے ذریعہ کنٹرول ہوتے ہیں لہٰذاان ہارمونس کو کسی خاتون کو خوراک کے طورپر کھلا نے یا انجکشن کے ذریعہ سے دئے جائیں تو بھی وہ خاتون حائض نہیں ہوسکتی یعنی اس طرح سے اسکو ماہواری نہیں آسکتی ، تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خون بچہ کیغذا بن جاتا ہے ۔ ؟جواب: مقصود یہ نہیں ہے کہ رحم سے خونر یزی ہوتی ہے جس کو بچہ نگل لیتا ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ حاملہ ہونے کی صورت میں ، خون ماں (حاملہ) کی رگوں میں ذخیرہ ہوجاتا ہے اور جفت وغیرہ کے ذریعہ،جنین کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور وہ آکسیجن اور خوراک کو بچہ ، اپنی ماں کے اسی خون سے حاصل کرتا ہے ، جیسا کہ بچہ کو دودھ پلانے کے زمانے میں بھی اکثر اوقات ، ماہواری نہیں ہوتی ، اس لئے کہ خون کا کچھ حصہ ، دودھ میں تبدیل ہو کر ، بچہ کی غذا بن جاتا ہے ۔ لہٰذ ااگر ہم کہیں کہ وہ خون ،بچہ کی غذا ہے ، تو مقصود یہ ہے ہم نے بیا ن کیا ہے وہ نہیں جو آپ نے تحریرکیا ہے ۔
کوئی حرج نہیں ، غسل کرسکتی ہے ، غسل جنابت کرنے سے جنابت سے وہ پاک ہوجائے گی ، نیز مستحبی غسل بھی کرسکتی ہے ۔
جواب: اس کا وضو اور غسل باطل ہے، لیکن یہ کہ جب دوسرا اس کے بدن پر پانی ڈال ڈالے اور وہ خود ہی اپنے آپ کو دھلے تو صحیح ہے، لیکن یہ کام ضروری مواقع کے علاوہ مکروہ ہے۔
جواب: منی کا ہر صورت میں خارج ہونا غسل کا باعث بنتا ہے، بشرطیکہ اس کو منی کے خارج ہونے کا یقین ہو اور اگرپروسٹیٹ (prostate)(مثانے کے غدود)کے آپریشن کی وجہ سے منی کے ذرات پیشاب میں حل ہوجائیں تو جنابت کا باعث نہیں ہے۔
جواب: پانی کا زیادہ مقدار میں استعمال کرنا غسل کو نقصان نہیں پہنچاتا لیکن اگر پانی کا اصراف ہو تو اصراف کی مقدار حرام ہے، اگر پسینا پانی کو مضاف نہ کرے تو غسل صحیح ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ پہلے پسینے کو دھوئے، اس کے بعد غسل کرلے۔
جواب: احتیاط واجب یہ ہے کہ غسل کو دوبارہ کرے اور غسل کے بعد نماز اور اسی جیسے امور کے لئے وضو کرے۔
جواب: اس پر لازم ہے کہ پہلے غسل کرے پھر درس میں شرکت کرے۔
جواب: غسل کرنا لازم نہیں ہے لیکن اگر اس کو یقین ہے کہ منی ہے تو خود کو پانی سے دھولے۔
جواب:تمام واجب غسل اور وہ غسل جو بطور یقینی مستحب ہیں مثال کے طور پر ”غسل جمعہ کے بعد“ بغیر وضو کئے نماز پڑھ سکتا ہے لیکن مستحب غسلوں کے بعد جورجاء مطلوبیت کی نیت سے انجام دئیے جاتے ہیں وضو کے جانشین نہیں بنتے۔