مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

کمپنی کے ذمہ دار کے ذریعہ نقصان پورا کرنے کی شرط

اس کمپنی کے مضاربہ کے منشور پر مشتمل متن کا بند سترہ (۱۷)درج ذیل ہے:”معاہدہ کرنے یا اُسے فسخ کرنے کے بعد اگر شعبہ کی تشخیص کے مطابق حساب کرنے کے نتیجہ میں کوئی نقصان کمپنی کو ہوتا ہے، اس صورت میں کمپنی کا سرپرست اس معاہدے کے بند میں مذکور عقد صلح کے ضمن میں عہد کرتا ہے اور اپنے ذمہ لازمی قرار دیتا ہے کہ مذکورہ نقصان کے برابر مال اپنے ذاتی مال میں سے مفت کمپنی کی ملکیت میں دیدے گا اور تاخیر کی صورت میں، معاہدے کی انجام دہی کے لازم ہونے کے علاوہ تین ہزار ریال پر روزانہ ایک ریال کمپنی کے مالک کے ذمہ ہوگا اور ہونے والے نقصان کے بارے میں فقط شعبہ کی اظہار نظر معتبر ہوگی، نیز اس سلسلہ میں کمپنی کا مالک مذکورہ عقد صلح کے ضمن میں ہر طرح کا اعتراض کرنے کا حق خود سے سلب اور ساقط کرتا ہے ۔عقد مضاربہ کے شرعی شرائط کوملحوظ رکھتے ہوئے، کیا یہ بند صحیح اور اشکال سے خالی ہے؟

عقد (معاہدے) کے ذیل میں اس طرح کے شرائط میں جو ضروری تو ہیں لیکن عقد (معاہدے) سے الگ ہونے ہیں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

سامان کی اسمنگلنگ کا شرعی حکم

اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سرحدی علاقوں میں ہر طریقہ کی اسمنگلی فراوانی کے ساتھ رائج ہے اور معاشرے کو غیر تلافی نقصانات پہنچاتی آرہی ہے، میں کچھ دوستوں اور انشاء الله آپ بزرگوں کی مدد سے اسمنگلی کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اسی غرض سے کچھ سوالات بنائے ہیں اور اُمید ہے کہ حضور ان سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں گے ۔۱۔ کلّی طور سے اسمنگلی کا اسلام کی مقدس شریعت میں کیا حکم ہے؟ چاہے وہ اسمنگلی شدہ اشیاء باواسطہ فساد آورد ہوں یا بلاواسطہ ہوں ۔۲۔ کیا اسمنگلی ملک اور لوگوں کے اوپر خیایت شمار ہوتی ہے؟ کیا اسمنگلی اور ہر وہ جو کسی بھی عنوان سے اس میں مدد کرتے ہیں منافقوں کے حکم میں ہیں؟ کیا اس سلسلے میں قرآن مجید اور احادیث معصومین علیہم السلام کا کوئی خاص بیان ہے ؟۳۔ اسمنگلر کے اموال سے کسی دوسرے شخص کے لئے استفادہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ چاہے وہ اس کو پیسوں سے خریدے یا مفت حاصل کرے؟۴۔ اگر اسمنگلری سے حاصل کئے پیسے سے خود اسمنگلر یا کوئی اور شخص جائز کاروبار کرتے تو اصل پیسہ اور اس سے کمایا گیا مال کا کیا حکم ہے؟۵۔ اگر زندگی سختی سے گذر رہی ہو تو کیا اسمنگلی کے پیشہ کو بطور شغل اختیار کیا جاسکتا ہے؟۶۔ معاشرے کے لوگوں کو اسمنگلروں کے ساتھ اور عمومی بطور پر اسمنگلی کے مسئلہ کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے؟۷۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ کچھ سرکاری افسروں کا اسمنگلروں سے رشوت لینا بڑا عام ہوگیا ، ایسے اشخاص کے لئے جنابعالی کیا وصیت فرماتے ہیں؟

۱۔ سے آخر تک : اشیاء کی اسمنگلی (یعنی سرحدوں سے غیر قانونی طور پر سامان کا ملک میں وارد کرنا) اسلامی شریعت کے احکام کے خلاف ہے اور اس سے شدّت کے ساتھ پرہیز کرنا چاہیے، خصوصاً اس وقت جب ملک ومعاشرے کے لئے ضرر کا سبب ہو، اور اسلامی ملک کے اقتصاد کو نقصان پہنچائے، اور اسمنگلی میں اسمنگلروں کی مدد کرنا جائز نہیں ہے اور اس کام کے لئے رشوت لینا دُہرا گناہ کناہ ہے، اور سب پر لازم ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو نہ بھلائیں ۔

دسته‌ها: اسمنگلنگ

مضاربہ میں یقینی منافع معیّن کرنا

کچھ عرصہ پہلے اس کمپنی نے سامان بنانے والے ایک تجارتی ادارے کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، جس کی بنیاد پر کمپنی کچھ قرض (لون) مذکورہ ادارے کودے گی اور ادارہ بھی اطمینان کے ساتھ اپنی فیکٹری سے حاصل ہونے والے چالیس فیصد فائدہ میں تیس فیصد فائدہ کمپنی سے مخصوص کردے گا دوسری طرف کمپنی نے بھی اسی مقصد سے ایک خاص اکاوٴنٹ کھولا ہے اور ضروری رقم کو، رقم جمع کرنے والے ممبران کے ذریعہ جمع کرتی ہے اور وہ اس مخصوص اکاوٴنٹ میں سرمایہ جذب کرنے کے اقدامات کرتے ہیں، واضح ہے کہ سرمایہ جذب کرنے کے لئے بھی اس کمپنی نے سرمایہ لگانے والوں کے سامنے اس مسئلہ کو اس طرح پیش کیا ہے کہ کمپنی اس جمع کی ہوئی رقم سے استفادہ کرنے سے ۳۰/ فیصد منافع کی ضامن ہے جس میں آٹھ فیصد کمپنی وصول کرے گی اور باقی بائیس فیصد منافع، سرمایہ جمع کرنے والے ممبران کو ادا کرے گی، اب یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ یہ موضوع یقینی طور پر معیّن کردیا جاتا ہے کیا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔؟

اگر اس ادارے کا منافع مذکورہ مقدار سے زیادہ ہو تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

مضاربہ میں اصل سرمایہ اور منافع ادا کرنے کی ضمانت لینا

ایک کمپنی کواپنا ضروری بجٹ پورا کرنے کے لئے، کچھ اشخاص حقوقی (سرمایہ دار) اور حقیقی (کام کرنے والے اور انجینیر وغیرہ) اشخاص یعنی دونوں قسم کے حضرات کی ضرورت ہوتی ہے، یہ لوگ کمپنی کے ساتھ کام کرنے کے لئے، منافع کی ادائیگی کے برابر ضمانت کی ضرورت ہوتی ہے، سرکاری کپمنیاں، اسی طرح یہ بھی چاہتی ہیں کہ ان کے اصل سرمایہ کی واپسی کی بھی ضمانت اور ذمہ داری لی جائے، مذکورہ ضمانتوں کے سلسلہ میں جنابعالی کا کیا نظریہ ہے ؟

تنہا ایک راستہ جو اس کام کے لئے پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ مضاربہ (مشارکت) کو منافع کے حصّہ کی بنیاد پر قرار دیں، لیکن علیحدہ سے دوسرے عقد لازم (چند جلد کتابوں کی خرید وفروخت کے معاملہ) میں شرط کریں، اگر اس مضاربہ کے معاملہ میں بیس فیصد سے کم یا اس سے زیادہ فائدہ ہوا ہو تو اس کی کسر پوری جائے، اسی طرح سرمایہ کے نقصان کے بارے میں ۔

بلوغ اور رُشد کا آپس میں رابطہ

بلوغ اور رُشد کے رابطے کے بارے میں فرمائیں:الف) کیا بلوغ اور رُشد (عقلی بلوغ) ان دونوں صفتوں کے درمیان کوئی ملازمہ (ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہونا) پایا جاتا ہے ؟ب) پہلے جواب کے منفی ہونے کی صورت میں، کیا بالغ ہونے کی عمر رُشد کی علامت ہوسکتی ہے ؟ج) بلوغ کے رُشد سے جدا ہونے اور بالغ ہونے کے بعد رُشد کے ثابت کرنے کے ضروری ہونے کی صورت میں کیا فقط مالی امور میں رشد کا ثابت کرنا لازم ہے یا مالی امور کے علاوہ غیر مالی امور میں بھی رشد کو ثابت کرنا چاہیے ؟د) اگر آپ مالی امور میں، رُشد کولازم جانتے ہیں تو اس صورت میں کیا ہر مال میں تصرف کرنے کے لئے، رشد کا ثابت کرنا لازم ہے یا اس کا لازم ہونا اس مال سے مخصوص ہے جو دوسروں کے اختیار میں ہوتا ہے ؟

الف سے دال تک: بلوغ اور رشد ایک دوسرے کے لازم وملزوم نہیں ہیں اور اکثر اوقات رشد، بلوغ کے بعد ہوتا ہے نیز رشد کے مراتب اور درجات ہیں؛ جیسے مالی امور میں رشد، (کبھی کم مال کے لئے رشید وعاقل ہوتا ہے اور کبھی زیادہ مال کے لئے) شادی کے امور میں رشد اور اسی طرح رشد کے دیگر مراتب ہیں اور جب تک ہر مرحلہ میں کافی مقدار میں عقلی رشد نہ ہو، اس وقت تک اس کے تصرفات نافذ نہیں ہیں، نہ شریعت میں اور نہ عقلاء کے یہاں ۔

دسته‌ها: حجر
دسته‌ها: حجر کے احکام

ممنوع التصرف (تصرف کی اجازت نہ ہونے) کے احکام

برائے مہربانی ممنوع التصرف (اپنے مال میں تصرف کرنے کا منع ہونا) کے متعلق درج ذیل سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:۱۔ کیا صاحب مال اپنے اخراجات نکال کر اپنے باقی مال کو تلف (ضائع) کرسکتا ہے یا اس مال کو ضائع کرنے کے لئے دوسرے شخص کے حوالہ کرسکتا ہے ؟۲۔ اگر مقروض صاحب مال (خواہ ممنوع التصرف ہو یا نہ ہو یعنی اس کو اپنے مال میں تصرف کرنے کا اختیار ہو یا نہ ہو) قرض خواہوںکو نقصان پہنچانے کے ارادے سے ایسا کرنا چاہے تو کیا حکم ہے ؟۳۔ دوسرے شخص کو ضائع کرنے کی اجازت دینے کے سلسلے میں معاہدے کے صحیح ہونے کی کیفیت کیا ہوگی؟۴۔ صاحب مال کے اپنے قرضوں کو ادا کرنے یا نہ کرنے کے امکان کے سلسلہ میں مباح لہ (جس کے لئے مال کو مباح کیا گیا ہو) کے علم وجہل کا کوئی اثر ہوگا؟۵۔ کیا قرض خواہان طاقت کے زور پر اپنا حق وصول کرسکتے ہیں؟یا مقروض کی کوئی چیز ضبط کرکے اس میں سے اپنا قرض واپس لے سکتے ہیں؟۶۔ کیا صاحب مال کے ذریعہ اپنے مال کو ضائع کرنے کے حکم کا ناجائز ہونا قاعدہ تسلط کے عام ہونے کے مخالف نہیں ہے ؟۷۔ مقروض آدمی کا قرض خواہوںکو نقصان پہنچانے اور قرض کی ادائیگی سے بچنے کے ارادے سے، مفت یا کسی غرض سے مہربان ہوکر یا اصل قیمت سے کم قیمت پر معاملات کرنا کیسا ہے ؟۸۔ مذکورہ حکم کی دلیل، قاعدہ لاضرر ہے یا اس کی دلیل اس کا ناجائز مقصد ہے (جیسے انگور کو شراب بنانے کے لئے فروخت کرناحرام ہے) ؟۹۔ حاکم کی جانب سے ممنوع التصرف کا حکم صادر ہونے سے پہلے کیا مقروض مفلَّس (دیوالیہ) کے لئے اپنے مال میں تصرف کرنا جائز ہے ؟۱۰۔ ممنوع التصرف کا حکم جاری ہونے سے پہلے یا بعد میں، اگر مقروض اقرار کرلے تو اس کے اقرار کی سنوائی ہوگی؟۱۱۔ مفت یا بدلے کے معاملات میں، نقصان پہنچانے کے ارادے سے کئے گئے معاملات کا باطل ہونا یا ان کے نافذ نہ ہونے کا حکم کیا اس شخص کے علمسے مربوط ہے جس سے معاملہ کیا گیا ہے ؟۱۲۔ قرض کی ادائیگی سے بچنے کے لئے یا مال کو چھپانے کی غرض سے فقط ظاہری صورت میں معاملہ کرنا کیسا ہے ؟۱۳۔ دوسرے کو نقصان پہنچانے کی غرض سے، کیا غیر ممنوع التصرف شخص کے بدلے کی صورت میں کئے گئے معاملات یا غیر بدلے کے معاملات نافذ ہوں گے ؟۱۴۔ ممنوع التصرف مقروض مستوعب دَین (جس کا قرض اس کے مال کے برابر ہو) سے مراد فوری قرض ہے یا مدّت دار قرض ہے ؟۱۵۔ ممنوع التصرف کا حکم صادر ہونے کے بعد ممنوع التصرف شخص کے کاروبار کی آمدنی کس سے متعلق ہوگی؟

ایک سے آخر تک: کسی شخص کے لئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ خود اپنے مال کو ضائع کرے یا دوسرے کو ضائع کرنے کی اجازت دے، اسی طرح مفت، یا اصل قیمت سے کم قیمت پر کئے گئے معاملات بھی جو قرض خواہوں کا حق ضائع ہونے کا باعث ہوتے ہیں، جائز نہیں ہیں، یہاں تک کہ اس صورت میں تو معاملہ کا صحیح ہونا بھی محل اشکال ہے، اسی طرح ظاہری طور پر معاملہ کرنا بھی یقیناً صحیح نہیں ہے اور مستوعب دَین یعنی جس قدر اس کا مال ہے اس مقدار میں قرض ہونا، حالیہ اور آئندہ دونوں قسم کے قرضوں کو شامل ہے، ممنوع التصرف شخص کے کاروربار کی آمدنی، ضروری اخراجات نکال کر، احتیاط واجب کی بناپر قرض خواہوں کو دی جائے گی۔

دسته‌ها: حجر کے احکام
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی