دعا و تعویز کا کام
کیا دعا (تعویز )لکھنا اور اسکے بدلے رقم دریافت کرنا جائز ہے ؟
جواب۔ اگر دعائیں شرعی اور آئمہ سے منقول ہوتی ہیں تو کوئی اشکال نہیں ہے ،لیکن خرافاتی اور پیشہور (تعویزوغیرہ) لکھنا جائز نہیں ہے
جواب۔ اگر دعائیں شرعی اور آئمہ سے منقول ہوتی ہیں تو کوئی اشکال نہیں ہے ،لیکن خرافاتی اور پیشہور (تعویزوغیرہ) لکھنا جائز نہیں ہے
موکل کے مرنے سے وکالت باطل ہو جاتی ہے ، لہذا اس بنا پر وکیل کو موکل کے مرنے کے بعد اس کے مال کو فروخت کرنے کا حق نہیں ہے ۔
جواب جو کھیل نمائش سر گرمی تفریح کے عنوان سے بعض نشستوں میں مشاہدہ میں آتے ہیں اور کسی شخص کی چالاکی اور ہاتھ کی صفائی کو ظاہر کرتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہیں ہوتا لیکن اگر لوگوکو دھوکا دینے کے لئے ہو تو یہ بھی جادو کی ایک قسم ہے کہ جس سے کمائی کرنا حرام ہے اور ایسی نشست میں شریک ہونا بھی حرام ہے
چنانچہ منافع، مضاربہ کے ذریعہ حاصل ہوا ہے اور تمام لوگوں کی مرضی سے اس طرح تقسیم ہوا ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
جواب: اگر کرایہ دار نے پگڑی نہیں دی ہے تو اسے کوئی حق نہیں ہے اور کرایہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اُسے چاہیے کہ دکان کو خالی کردے، لیکن بہتر یہ ہے کہ عام رواج کے مطابق جو دکاندار اور اس پیشہ کا حق شمار ہوتا ہے اس کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ مصالحت کریں ۔جواب: اگر اس کا حق ہو اور وہ بخشدے تب اس کے بچّے کوئی دعویٰ نہیں کرسکتے ۔
جواب۔ ان کاموں کے بدلہ پیسا لینا جائز نہیں ہے .
مظلوم کی راہنمائی ہر شخص کے لئے جائز بلکہ مذکورہ واقعہ میں شاید واجب ہو اور (مد مقابل کو مشورہ دینا اور اس کی راہنمائی کرنا ) خیانت میں شمار نہیں ہوگا ( اگرچہ بظاہر موکل قانون کے مطابق بات کر رہا ہے ) لیکن اس طرح موقعوں پر موکل سے اپنے کام کی اجرت نہیں لے سکتا ہے۔
چھوٹے اور بڑے یا نئے اور پرانے نوٹوں کو نئے ہونے یا بڑے نوٹوں کا حجم کم ہونے کی وجہ سے مختصر فرق کے ساتھ نقدا خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے اوراسی طرح مختلف کرنسی کی خرید و فروخت میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔
مذکورہ معاملہ میں اشکال نہیں ہے ، اور درختوں کے بڑا ہونے کے بعد ، دونوں کی مرضی سے اور قرعہ سے تقسیم کرسکتے ہیں اور تقسیم ہونے کے بعد دونوں اپنے اپنے حصہ کے مالک ہوجائیں گے۔
اگر حاصل شدہ منافع اور اس کی مقدار مبہم( نامعلوم ) ہے تو اس صورت میں صلح کرنے میںکوئی اشکال نہیں ہے لیکن منافع کے ظاہر ہونے سے پہلے صلح کرنا جائز نہیں ہے۔
اگر مکان کو امام جماعت کی سکونت کے لئے بنایا گیا تھا تو اس کو کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے؛ مگر یہ کہ امام جماعت اس کو استعمال نہ کرے اور معطّل پڑا رہے؛ اس صورت میں اس کو کرایہ پر دیا جاسکتا ہے اور اس کے کرایہ کو مسجد کی ضروریات میں صرف کیا جاسکتا ہے اور اگر امام جماعت مجبور ہے کہ دوسرا گھر کرایہ پر لے تو اس کے کرایہ کا پیسہ امام جماعت کو دیا جاسکتا ہے؛ لیکن اگر اس کا خود ذاتی مکان ہو تو کرایہ کے پیسہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔