باکسینگ کے جایز ہونے حکم
باکسینگ کے خطرات کو دیکھتے ہوئے اس بارے میں کیا حکم ہے؟
باکسینگ کے خطرات کے پیش نظر اس کا جایز ہونا مشکل ہے مگر ضرورت کے وقت، ان لوگوں کے لیے جو مقابلوں کے لیے اس کی تیاری کر رہے ہوں۔
باکسینگ کے خطرات کے پیش نظر اس کا جایز ہونا مشکل ہے مگر ضرورت کے وقت، ان لوگوں کے لیے جو مقابلوں کے لیے اس کی تیاری کر رہے ہوں۔
مذکورہ کھیل سے جب جوئے کا عنوان ختم ہوجائے اور عام لوگوں کی نظر میں وہ ایک ورزش یا تفریح کی حیثیت سے معروف ہوجائے تب اس صورت میں، مال کی ہار جیت کے بغیر، اس سے کھیلنے میں اشکال نہیں ہے اور اس صورت کے علاوہ جائز نہیں ہے ۔
اگر اپنے ذاتی دفاع، یا ملک اور مسلمانوں کی عزت وآبرو کے لئے ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن کھلاڑی لوگ کھیل سے پہلے ایک دوسرے سے برائت حاصل کرلیں تاکہ ایک دوسرے کے ضامن نہ ہوں ۔
اگر بیت المال کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ تھا تو اس پر عمل کرے اور اگر اس کا کوئی معاہدہ نہیں تھا تو وہ آزاد ہے؛ لیکن انصاف یہ ہے کہ اپنے ملک کے نفع میں کام کرے ۔
معیار یہ ہے کہ جس علاقہ میں اس سے کھیلا جاتا ہے وہاں کے رہنے والے حضرات اس کو جوئے کا ذریعہ وآلہ نہ سمجھتے ہوں بلکہ اُسے ایک قسم کی ورزش شمار کرتے ہوں ۔
ا سے ۷ تک: بیشک ورزش جسم وروح کی سلامتی کے لئے ضروری ہے اور اسلام میں بھی بامقصد ورزش کی تاکید ہوئی ہے (جیسے گھڑ سواری، تیراکی وغیرہ) لیکن شرط لگانے کی فقط گھڑ سواری اور تیراندازی میں اجازت دی گئی ہے، افسوس کہ آج ورزش اور کھیل کود جیسا کہ آپ نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے، بہت سے موارد میں اپنے اصلی راستہ سے ہٹ گئے اور افراط وتفریط کی طرف مائل ہوگئے ہیں اور کبھی کبھی زرپرستوں کے تجارتی مسائل کا آلہ یا سیاست بازوں کا لقمہٴ تر بن جاتے ہیں، اگر یہی حال رہا تو ورزش کرنے والوں اور اس کے شائقین کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے،اُمید کرتا ہوں کہ ورزش اور کھیل کود کے اندیشمندان اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کی روک تھام کے لئے کوئی راستہ تلاش کریں، اس کو اس کی اصلی جگہ دیں اور یہ بھی کہ ہمارے کچھ جوان ورزش کے انحرافات کی بھینٹ چڑھتے جارہے ہیں اس کی بھی روک تھام ہونی چاہیے۔
ایک سے ۱۰ تک: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ورزش ہر سنّ کے افراد چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بوڑھے ہو ںیا جوان، کی صحت سلامتی وسلامتی کی حفاظت کے لئے بہت ضروری کاموں میں شمار ہوتی ہے، اس کے علاوہ ورزش صحیح وسالم سرگرمی کے لئے بہت سے خالی اوقات کو بھرسکتی ہے اور انسان کو غیر سالم سرگرمیوں سے باز رکھ سکتی ہے، لیکن یہ بات بھی مسلّم ہے کہ عورتوں اور مردوں کی شرعی پابندیوں کا خیال رکھا جائے، اور ورزشی مقابلہ اس چیز کے مجوّز نہیں سکتے ہیں ہم اپنی تہذیب اپنے کلچر کو چھوڑکر اغیار کی تہذیب کو اپنالیں، عام طور سے عورتیں ایسی جگہوں پر جو فقط عورتوں سے مخصوص ہیں مناسب لباس کے ساتھ پردے میں یا بغیر شرعی پردے کے، اس چیز کا خیال رکھتے ہوئے کہ جنس مخالف وہاں پر نہ ہو کھیل کود کرسکتی ہیں، ان کے مربّی اور ریفری بھی عورتوں میںسے چنے جائیں، جیسا کہ مردوں کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہے اور انھیں اسے کھیل کھینا چاہیے جن سے ان کے جسموں کو نقصان نہ پہنچے ۔
جواب:۔ مسئلہ کے فرض میں کوئی ممانعت نہیں ہے مگر ان موارد میں کہ جہاں ایسا کرنے سے خاص گناہ ظاہر ہو .
ان کاموں کے برے اثرات و نتایج کے پیش نظر ان سے پرہیز ضروری ہے اور اس بارے میں لوگوں کی باتوں کو توجہ نہیں دینی چاہیے۔
جواب ۔عام لوگوں میں شطرنج کا شمار جوے اور قمار کے آلات میں ہوتا ہو تو اس سے کھیلنا حرام ہے اور اگر قمار سے خارج ہو کر فکری ورزش کا حصہ ہو گیا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے