حیوانات کے پالنے کا خرچ
حیوانات کے پالنے میں ہر مہینے ایک معیّن رقم خرچ کرنا پڑتی ہے، جیسے قناری یا طوطے کے لئے دانہ خریدنا، خرگوش کے لئے کاہو اور سبزہ خریدنا، اس طرح کے خرچ کا کیا حکم ہے؟
یہ خرچ اگر اسراف کی حد تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ خرچ اگر اسراف کی حد تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر طہارت اور نجاست کے مسائل کا خیال رکھا جائے اور گھر میں اس کا رہنا مفید ہو تو کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن وہ طریقہ جو کتّے کے سلسلے میں اہل مغرب اختیار کرتے ہیں اسلام اس کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔
کتّوں کے درمیان اس جہت سے فرق نہیں ہے اور معمولاً مسلمان حضرات کتّوں سے تین جگہوں پر استفادہ کرتے تھے: گھر کی پہرہ داری، باغ کی پہرہ داری اور ریوڑ کی پہرہ داری کے لئے۔ اور ہماری فقہی کتابوں میں بھی ان تینوں قسموں کے کتّوں کے بارے میں بحث ہوئی ہے، اور ان کو ”کلب الحارس“ ،”کلب الماشیہ“ اور ”کلب الحائط“ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
حیوانات کے پالنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن اس سے باایمان لوگوں کا کوئی مقصد ضرور ہونا چاہیے؛ ہرچند کہ ان سے استفادہ کرنا خوبصورتی اور اچھی آواز سننے کے لئے ہی کیوںنہ ہو؛ اور اس بات کا بھی خیال رہے کہ یہ کام اسراف اور فضول خرچی کا باعث بھی نہ بنے۔
مذکورہ بالا فوائد کے تحت حیوانات کے پالنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی ممانعت ہے بلکہ اس میں مادی اور معنوی فوائد بھی پائے جاتے ہیں لیکن یہ کام ایسے ہونا چاہیے کہ اس سے اسراف یا حیوانات کو اذیت نہ پہنچے۔
غیر موذی حیوانات کو اذیت دینے یا اُن کو مارنے میں اشکال ہے، اور ان سے ہمدردی کرنا اچھا ہے۔
ہر طرح کا وہ عمل جو حیوانات کی نسل کے خاتمہ کا سبب ہو، اور اس سے معاشرے کو ضرریا نقصان پہنچے، جائز نہیں ہے۔
اگر اس میں عقلائی غرض موجود ہو اور حد سے زیادہ آزار واذیّت کا سبب نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
اگر اس کبوتر کا کوئی مالک نہیں تھا، یا وہ مشکوک الحال تھا تو اس کے پکڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر ان سے مزاحمت ہو تو انہیں مار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر ڈاکٹر کی بات پر یقین اور اطمینان حاصل ہو جائے تو کافی ہے اور اگر یقین نہ ہو تو کافی نہیں ہے۔
اگر مزدوری کے عنوان سے لیتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔