مختصر جواب:
مفصل جواب:
ابن حجر ھیثمی مکہ نے اس حدیث میں مناقشہ کیا ہے اور اس کے مضمون کو ابوبکر، عمر اور عثمان کی شان میں بھی بیان کیا ہے۔ اس نے کتاب فردوس سے اس طرح نقل کیا ہے : انا مدینة العلم و ابوبکر اساسھا و عمر حیطانھا و عثمان سقفھا و علی بابھا (۱) ۔ میں شہر علم ہوں ، ابوبکر اس کی اساس ہے، عمر اس کی دیواریں ہے، عثمان اس کی چھت ہے اور علی ا س کے دروازہ ہیں۔
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں:
اولا : کسی کو بھی اس حدیث کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، یہاں تک کہ ابن حجر نے اس حدیث کوصواعق محرقہ میں نقل کیا ہے لیکن کتاب الفتاوی الحدیثیہ میں اس کو ضعیف شمار کیا ہے (۲) ۔
عجولی نے کشف الخفاء میں کہا ہے: دیلمی نے اس حدیث کو بغیر سند مرفوع کے طور پر ابن مسعود سے نقل کیا ہے (۳) ۔
سید محمد درویش کہتے ہیں: حدیث ”انا مدینة العلم و ابوبکر اساسھا و عمر حیطانھا و عثمان سقفھا و علی بابھاکیلئے سزاور نہیں ہے کہ اس کو علمی کتابوں میں لکھا جائے ، خصوصا اس وقت جب اس کے راوی ابن حجر ہیثمی ہو (۴) ۔
ذھبی نے اسماعیل بن علی بن مثنی استرآبادی ، واعظ کذاب کے ترجمہ میں کہا ہے: وہ جس وقت دمشق میں لوگوں کو موعظہ کررہا تھا، ایک شخص اس کے پاس آیا اور اس سے حدیث انا مدینة العلم و علی بابھا کے متعلق سوال کیا ؟ اس نے کہا یہ مختصر حدیث ہے اور اس کی اصل اس طرح ہے: انا مدینة العلم و ابوبکر اساسھا و عمر حیطانھا و عثمان سقفھا و علی بابھا۔ لوگوں نے اس سے کہا: اپنی سند کو اس حدیث کے سلسلہ میں بیان کرے،اس نے کہا : بعد میں بتاؤں گا (۵) ۔
ثانیا : اسماعیل بن علی بن مثنی استرآبادی ، ذھبی کے بقول کذاب ہے اور سمعانی نے کتاب الانساب میں اس کی سوانح عمر ی کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : وہ کذاب ابن کذاب ہے (۶) ۔
نخشبی نے کہا ہے: اسماعیل ، جھوٹے قصہ بیان کرتا تھا اور اس کا چہرہ متقی و پرہیزگار جیسا نہیں تھا ۔ مکہ میں ابی نصر سجزی کے پاس گیا اور اسماعیل کے بارے میں اس سے سوال کیا ؟ اس نے کہا: وہ کذاب بن کذاب ہے ،اس سے کبھی بھی حدیث نہیں لکھتے اور اس میں کوئی کرامت نہیں پائی جاتی (۷) ۔
ثالثا : مدینہ کے معنی شہر کے ہیں اور یہ فرض کرتے ہوئے کہ شہر کی بنیاد اور دیواریں ہوتی ہیں لیکن کبھی بھی شہر پر چھت نہیں ہوتی لہذا اس حدیث کامتن اس کے جعلی ہونے پر دلالت کرتا ہے (۸) ۔
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں:
اولا : کسی کو بھی اس حدیث کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، یہاں تک کہ ابن حجر نے اس حدیث کوصواعق محرقہ میں نقل کیا ہے لیکن کتاب الفتاوی الحدیثیہ میں اس کو ضعیف شمار کیا ہے (۲) ۔
عجولی نے کشف الخفاء میں کہا ہے: دیلمی نے اس حدیث کو بغیر سند مرفوع کے طور پر ابن مسعود سے نقل کیا ہے (۳) ۔
سید محمد درویش کہتے ہیں: حدیث ”انا مدینة العلم و ابوبکر اساسھا و عمر حیطانھا و عثمان سقفھا و علی بابھاکیلئے سزاور نہیں ہے کہ اس کو علمی کتابوں میں لکھا جائے ، خصوصا اس وقت جب اس کے راوی ابن حجر ہیثمی ہو (۴) ۔
ذھبی نے اسماعیل بن علی بن مثنی استرآبادی ، واعظ کذاب کے ترجمہ میں کہا ہے: وہ جس وقت دمشق میں لوگوں کو موعظہ کررہا تھا، ایک شخص اس کے پاس آیا اور اس سے حدیث انا مدینة العلم و علی بابھا کے متعلق سوال کیا ؟ اس نے کہا یہ مختصر حدیث ہے اور اس کی اصل اس طرح ہے: انا مدینة العلم و ابوبکر اساسھا و عمر حیطانھا و عثمان سقفھا و علی بابھا۔ لوگوں نے اس سے کہا: اپنی سند کو اس حدیث کے سلسلہ میں بیان کرے،اس نے کہا : بعد میں بتاؤں گا (۵) ۔
ثانیا : اسماعیل بن علی بن مثنی استرآبادی ، ذھبی کے بقول کذاب ہے اور سمعانی نے کتاب الانساب میں اس کی سوانح عمر ی کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : وہ کذاب ابن کذاب ہے (۶) ۔
نخشبی نے کہا ہے: اسماعیل ، جھوٹے قصہ بیان کرتا تھا اور اس کا چہرہ متقی و پرہیزگار جیسا نہیں تھا ۔ مکہ میں ابی نصر سجزی کے پاس گیا اور اسماعیل کے بارے میں اس سے سوال کیا ؟ اس نے کہا: وہ کذاب بن کذاب ہے ،اس سے کبھی بھی حدیث نہیں لکھتے اور اس میں کوئی کرامت نہیں پائی جاتی (۷) ۔
ثالثا : مدینہ کے معنی شہر کے ہیں اور یہ فرض کرتے ہوئے کہ شہر کی بنیاد اور دیواریں ہوتی ہیں لیکن کبھی بھی شہر پر چھت نہیں ہوتی لہذا اس حدیث کامتن اس کے جعلی ہونے پر دلالت کرتا ہے (۸) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.