مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوال : کیا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے لفظ مولی سے ”محب اور ناصر“مراد لیا ہے؟
جواب : بالفرض اگر لفظ ”مولی“ سے یہ دونوں معنی مراد لئے گئے ہوں تو یہ دوحال سے خارج نہیں ہے ، یا مراد یہ ہے کہ لوگوں کو علی (علیہ السلام) کی محبت اور یاری کے لئے اس وجہ سے تشویق کررہے ہوں کیونکہ آپ بھی ایک مومن اور مدافع ہیں ۔ یا مراد یہ ہے کہ لوگوں کو آپ کی محبت اور مدد کا حکم دیں ، بہر جملہ یا خبری ہے یا انشائی ہے ۔
احتمال اول : یعنی آپ کی محبت کے واجب ہونے کی خبر دینا : یہ لوگوں کے لئے کوئی نئی بات اور نئی آشنائی نہیں ہے اور اس کی تبلیغ بھی پہلی مرتبہ نہیں کررہے تھے جو اس حساس وقت میں اس کا حکم دیتے اور قرآن کریم کے صریح بیان کے مطابق اگر اس کو انجام نہ دیاتو گویا رسالت کا پیغام نہیں پہنچایا اور اس پیغام پہنچانے کی وجہ سے لوگوں کو اس نامناسب جگہ پر اتنی زحمت دیتے اور لوگوں کو جمع کرتے ،دین کو کامل ،نعمت کو تمام اور پروردگار کو خوشنود کرتے ،گویا کہ کوئی نئی خبر آئی تھی اور نیا قانون وضع کررہے تھے جو پہلے نہیں تھا اور مسلمان بھی اس سے بے خبر تھے اور پھر اس کے بعد مسلمان آئیں اور مبارک باد دیں، وہ بھی اس طرح کے جملوں کے ذریعہ مبارک باددیں : ”اصبحت مولای و مولی کل مومن و مومنة“۔ ایسی عبارت جو خبر دے رہی ہے کہ بہت بڑا حادثہ واقع ہوا ہے جس کے کہنے والے کو اس سے پہلے اس کی خبر نہیں تھی ، کیونکہ ہر مسلمان رات دن قرآن مجید میں ان آیات کی تلاوت کرتا ہے : المومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض“ (۱) مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور مدد گار ہیں اور اسی طرح خداوند عالم نے دوسری جگہ فرمایا : ”انما المومنون اخوة“ (۲) ۔ مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔یہ آیتیں مومنین کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں ،(پس اس پیغام کو ان خاص شرائط میں دوبارہ ابلاغ کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں) ۔ اور ہم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات کو ایسے بیہودہ کام سے بہت دور سمجھتے ہیں اور اپنے حکیم پروردگار کو بھی اس طرح کے عبث کاموںسے پاک و پاکیزہ جانتے ہیں ۔
احتمال دوم : آپ کی محبت اور مدد کو واجب کرنا : یہ احتمال بھی پہلے احتمال کی طرح بہت زیادہ آسان ہے کیونکہ محبت اور مدد کے باب میں کوئی ایسا فرمان اور قانون باقی نہیں رہ گیا تھا جو صادر یا وضع نہ ہوا ہو جس کے اعلان اور ابلاغ کی ضرورت تھی ۔
اس کے علاوہ اگر محبت کے واجب ہونے کی خبر دینا (پہلا احتمال) یا آپ سے محبت کرنے کا حکم دینا(احتمال دوم) منظور تھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو یہ نہیں فرمانا چاہئے تھا : ”من کنت مولاہ ․․․“۔ بلکہ کہنا چاہئے تھا : ”من کان مولای فھو مولی علی“۔ جو بھی مجھے چاہتا ہے پس وہ علی (علیہ السلام) کی محبت اور مدد کرنے والا ہے ۔
اس وجہ سے حدیث میں مولی کے معنی سے یہ دونوں احتمال خارج ہیں ۔ اور شاید سبط ابن جوزی اس نکتہ کی طرف متوجہ تھے جیسا کہ انہوں نے ”تذکرة“ (۳) میں کہا ہے :
حدیث میں لفظ ”مولی“ کو ناصر اور مددگار پر حمل کرنا صحیح نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ ان دونوں کے قسموں کے مطابق (خبری یا انشائی ہونا جیسا کہ پہلے اور دوسرے احتمال میں بیان ہوا ہے )صرف علی (علیہ السلام) سے محبت اور مدد کرنا واجب نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں سے محبت کرنا اور ان کی مدد کرنا واجب ہے ۔ اس بناء پر اس کو امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے مخصوص کرنے اور اس طرح کے اہتمام کرنے کی کیا وجہ ہوگی؟!
اور اگر خاص محبت اور مدد مراد ہے یعنی لوگوں کے درمیان جو محبت رائج ہے اس سے زیادہ محبت کا حکم دینا چاہتے ہیں جیسے ان کی پیروی یا ان کے حکم کی تعمیل ، یا ان کے سامنے سر تسلیم خم کرناتو یہ وہی حجیت اور امامت کے معنی ہیں ۔ خصوصا اگر امامت کو جملہ ”من کنت مولاہ “ کے مطابق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خصوصیات کے پاس رکھدیں تو پھر حجیت اورامامت کے معنی سمجھ میں اجائیںگے ۔کیونکہ اگر عبارت ”فعلی مولاہ“ میں مذکورہ معنی کے درمیان اور پیغمبر اکرم کی خصوصیات (من کنت مولاہ“ کو ایک دوسرے سے جدا کردیں تو کلام کا سیاق خراب ہوجائے گا ۔
تیسرا احتمال : یعنی علی (علیہ السلام) کو محبت اور مدد کے واجب ہونے کی خبر دینا : اگر یہی معنی منظور تھے تو پیغمبر اکرم (صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم) کو یہ معنی علی (علیہ السلام) کو بتانے چاہئے نہ کہ لوگوں کو اس کی خبر دیں ۔
چوتھا احتمال : یعنی علی (علیہ السلام) پر لوگوں کی محبت اور مدد کو واجب قرار دینا ، یہ احتمال بھی تیسرے احتمال کی طرح ہے ، کیونکہ اس صورت میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مذکورہ اہتمام جیسے لوگوں کے لئے خطبہ دینے، لوگوں سے اس کوسننے کی درخواست کرنے اور لوگوں سے اقرار لینے سے، بے نیاز ہوجاتے ، مگر یہ کہ آپ لوگوں کے احساس و عواطف کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہوں اوران کی محبت کو اس امرکی بانسبت قوی کرنا چاہتے ہوں ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے جملہ کو ”من کنت مولاہ“ سے آغاز کیا ، اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آنحضرت کی مراد لوگوں کے درمیان معمولی محبت اور مدد نہیں تھی بلکہ آپ کی مراد وہی محبت اور مدد تھی جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مخصوص ہے اور یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم کی محبت اور مدد دوسرے مومنین کی محبت اور مدد کی طرح نہیں ہے بلکہ دوسروں کی محبت اور مدد سے قابل مقایسہ نہیں ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی امت سے اس لحاظ سے محبت کرتے ہیں کہ آپ ان دین اوردنیا کے رہبر ہیں ،ان کے اختیارات کے مالک ہیں اوران کے نفسوں سے زیادہ آنحضرت کو ان پر حق حاصل ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا بھیڑئیے اور وحشی جانور ان کو پارہ پارہ کردیتے اور ہر طرف سے ان کی طرف ہاتھ بلند ہوتے پھر ہر طرح کی غارت ان کے ساتھ ہوتی ، ان کے مال دوسروں کے لئے مباح ہوجاتے، بہت سی جانیں چلی جاتیں، اورحرمتیں پائمال ہوجاتیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ خداوند عالم کا جو ہدف تھا وہ سب ختم ہوجاتا (لہذا خداوند عالم کے ہدف کو محفوظ رکھنے کے لئے ایسی محبت اور مدد ضروری ہے اور جو بھی ایسی محبت اور مدد سے برخوردار ہو وہ بے شک زمین کے اوپر خدا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا خلیفہ ہے ۔(۴) ۔
۱۔ سورہ توبہ، آیت ۷۱۔
۲۔ سورہ حجرات ، آیت ۱۰۔
۳۔ تذکرة الخواص، ج ۱۹، ص ۳۲۔
۴۔ شفیعی مازندرانی، گزیدہ ای جامع از الغدیر، ص ۱۰۹۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.