مختصر جواب:
مفصل جواب:
سؤال :کیا وہ حدیث جس میں جناب فاطمہ اور ان کی اولاد پر دوزخ کی آگ حرام ہے ابن تیمیہ کے کہنے کے مطابق جعلی اور گڑھی ہوئی ہے واس کاکوئی اعتبار نہیں ہے ،؟
جواب : وہ کہتا ہے کہ ،
وہ حدیث جو علامہّ نے رسولاسلام سے نقل کی ہے کہ ( اِ نّ فاطمہ أحصنت فَر جھا فحرّمَھا اللہُ وذرَّ یتھا علی النّار ) فاطمہ زھراء چونکہ پاک دامن تیھں اس لیے اللہ نے اُن پر اور ان کی اولاد پر جھنم کی آگ کو حرام قرار دیا ہے ،
یہ حدیث اھل معرفت کے نزدیک جھوٹی ہے اور اس حدیث کا جھوٹا ہونا لوگوں پر ابھی واضح ہوجاے گا ، یہ کہنا کہ ،، فاطمہ پاک دامن تھیں لہذا خدا نے ان پر اور ان کی اولاد پر آگ کو حرام قرار دیا ہے ،، یہ بالکل باطل ہے کیونکہ سارہ بھی پاک دامن تھیں لیکن اللہ تعالی نے ان کی اولاد پر آگ کو کہیں حرام قرار نہیں دیا اسی طرح پیغمبر اسلام کی پھوپھی صفیہ تھیں جبکہ وہ پاک دامن تھیں اور ان کی بعض اولاد نیک اور صالح تھی اور بعض اولاد نیک نہیں تھی ،
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاک دامن عورتٰیں بہت ہیں جن کی تعداد کو صرف خدا ہی جانتا ہے اور ان کی اولاد میں سے بعض نیک و صالح ہیں اور بعض کی اولاد نیک نہیں ہیں بعض مومن ہیں اور بعض کافر ہیں لہذا فاطمہ کا پاک دامن ہونے میں کوئی فضیلت وامتیاز وبرتری نہیں پائی جاتی کیونکہ وہ اس صفت میں دیگر عورتوں کے ساتھ مساوی ہیں ، (۱)
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ تعجب ہے اس شخص پر کہ جو ہر وقت یہ گمان کرتا ہے کہ اجماع یا اتفاق اس کے ارادہ کے تحت ہے کہ جب بھی اس کو کوئی آیت یاحدیث یا کوئی اور مسلہ اس کے عقیدہ کے مطابق نہ ہو تو فوراً حکم صادر کردیتا ہے کہ علماء اجماع کریں چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ وہ بھی بلا فاصلہ اس کی آواز پر لبیکّ لبیکّ کہدیتے ہیں اور اجماع کرلیتے ہیں اس کے بعد وہ اس اجماع کے ذریعہ سے استدلال کرتا ہے ،! خدا کی قسم اگر انسان کو جھوٹ بولنے اوربھودہ باتیں کرنے سے منع نہ کیا گیا ہوتا جتنا جھوٹ اس شخص نے بولا ہے کوئی اور نہیں بول سکتا تھا ،
ائے کاش ہم جانتے کہ اس نے اس حدیث کے متعلق کس طرح سے کہدیا جبکہ اس کو حافظاّن حدیث اور حدیث کی معرفت رکھنے والے اشخاص جیسے حاکم ، خطیب بغدادی ، بزّاز ، ابویعلی ، عقیلی ، طبرانی ، ابن شاھین ، ابو نعیم ، محّب طبری ، ابن حجر ، سیوطی ، متّقی ھندی ، ھیثمی ، زرقانی ، صباّن وبَدَ خسی (۲) وغیرہ نے نقل کیا ہے اور اس حدیث کے صحیح ہونے کی بھی تائید کی ہے ، جو اس کے جھوٹ اور اجماع کے باطل ہونے پر دلالت کرتا ہے ،؟ ! ائے کاش وہ ان دعوی کرنے والوں کے نام جن کے متعلق اس نے جھوٹ بولنے کا حکم لگایا ہے ان کی طرف اشارہ کیا ہوتا اور ہمیں ان کے کچھ کلام وآثار سے آگاہ کردیتا ،
کیا یہ عقل سے دور کی بات نہیں ہے کہ جو اس اپنے وھم و گمان سے خیالی پلاؤ پکائی ہے اور اس حدیث پر شبھ اندازی کی ہے جو صحیح ہے اور اس کی تاید بھی ثٓابت ہے ایسی حدیث کو مورد نقد واعتراض قرار دیا ہے ،
کیونکہ اس کی عادت یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے فضایل اس کو پسند نہیں آتے لہذا ہم اُس سے معلوم کرتے ہیں کہ عّفت و پاکدامنی اور ان کی اولاد پر آگ کے حرام ہونے میں کیا ملازمہ پایاجاتا ہے جو اس نے سارہ و صفّیہ جیسی دیگرمؤمنہ خواتین کے ذریعہ سے نقد کیا ہے ؟ بلکہ یہ فضیلت تو سیّدہ نساءالعالمین کے لیے مخصوص ہے اس کے علاوہ بہت سے فضایل ہیں جو آپ سے مخصوص ہیں ، اگرچہ جناب سارہ وجناب مریم وجناب حوّا یاان کے علاوہ دیگر جوخواتین ہیں وہ صاحب فضیلت عظمت ہیں لیکن ان میں وہ فضایل نہیں پاے جاتے جو جناب سیدّہ میں پائے جاتے ہیں ، لہذا اس وجہ سے اگر ان کے فرزندوں یا ان کی اولادمیں خاص امتیازات پاے جاتے ہیں تو اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے جبکہ اس لہذا سے ان کے فضایل کم نہیں ہیں ،
علامہّ زرقانی مالکی اس خیالی پلاؤکے ملازمہ کی ردّ اپنی کتاب ،، شرح المواھب ،، میں کرتے ہوئے کہتے ہیں : کہ اس حدیث کو ابویعلی و طبرانی و حاکم نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے ، و نیز حاکم کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے بہت سے شواھد پائے جاتے ہیں ، اور اس کا جناب سیّدہ کی اولاد پر آگ کے حرام نہ ہونے کو قرار دینے کا کیا مطلب،اور ان کی صفت یہ تھی کہ وہ پاک دامن تھیں اس سے جناب مریم کی طرف اشارہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ،
اوّل: یہ ہے کہ اسنے ان کی فضیلت و برتری کو صرف پاکدامنی میں ہی آشکار کردیا دوم : اس نے صفت پاک دامن کی مدح کی ہے اور اس کی اھّمیت کو واضح کیا ہے ، جب کہ جناب فاطمہ زھراء کے لیے بہت زیادہ ایسی حدیثیں ہیں کی جن ذکر ہوا ہے کہ آپ پر دوزخ کی آگ حرام (۳)
اور اس حدیث کی بہت سی دیگر حدیثوں سے تائید بھی ہوتی ہے جیسے ابن مسعود کی یہ حدیث ( انماّ سمُیتّ فاَ طمۃ لانّ اللہ َ قدفَطَمھا وذریتھا عن یوم القیامۃ ) (۴) اس وجہ سے آپ کا نام فاطمہ رکھا گیا ہے کہ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روزآپ اور آپ کی اولاد سے جھنم کی آگ کو دور رکھا ہے ( یعنی خدا وند عالم نے آپ اور آپکی اولاد پر دوزخ کی آگ کو حرام قرار دیا ہے )
پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا جناب فاطمہ زھراء علیہا السلام سے یہ فرمانا( اِنّ اللہَ غیرُ معذُبکِ ولا أحداً من ولدکِ )(۵)اللہ تعالیٰ تم پر اور تمہاری اولاد میں سے کسی پر بھی عذاب نہیں کرے گا،
دوسری حدیث میں رسول اسلام نے علی علیہ السلام سے فرمایا ( اِنّ اللہَ قدَ غفرَ لکَ
وَ لذُرّیتّک )(۶) خدا وند عالم نے تم کو اور تمھاری ذریت کو بخش دیا ہے ،
اور کہیں پر رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اس طرح سے فرمایا ( وَعدَ نی ربّی فی أھل بیتی من أقرّ منھم بالتوحید ولییبالبلاغ أنہ لا یعذّ بُھم )(۷) میرے پرور دگار نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میرے اھل بیت میں سے جس نے بھی اللہ تعالیٰ کی توحید اور میں اس کا رسول ہوں کا اقرار کیا ہے تو اس کو کبھی بھی عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا (۸)
۱۔ منھاج السنۃ ۲: ۱۲۶،
۲۔ رجوع کریں : مستدرک حاکم [ ۳، ۱۵۲، تاریخ بغداد [ ۳، ۵۴، ]؛ مسند برّاز [ ۵، ۲۲۳، ح ۱۸۲۹،]؛ وابو یعلی نے بھی اس روایت اپنی مسند کبیر میں ذکر کیا ہے [ اُسی طرح سے جیسے المطالب العالیہ ۴،۷۰، ح۳۹۷۸،] میں ذکر ہوا ہے ؛ نقل کیا ہے اور المعجم الکبیر میں طبرانی نے [۲۲، ۴۰۶،ح ۱۰۱۸، ] اور والثغور الباسمہ میں ؛ سیوطی : نے ۴۶،و۔۔۔۔۔۔
۳۔ شرح المواھب زرقانی ۳: ۲۰۳، اور اس کا پورا کلام جو اس نے اپنی کتاب میں نقد کی ہے ،، الصراع بین الا سلام والوثنیۃ ،، میں آیگا ،
۴۔ تاریخ ابن عساکر [ ۱۷، ۷۷۰؛ مختصر تاریخ دمشق ۲۶، ۲۸۶،] ؛ الصواعق : ۹۶،[ص۱۶۰،]
۵۔ اس حدیث کو طبرانی نے کتاب [المعجم الکبیر ۱۱، ۲۱۰، ح ۱۱۶۸۵، اسی سند کے ساتھ جو اس کے ثقہ راویوں نے نقل کیا ہے ، اور ابن حجر نے الصواعق: ۹۶،و۱۴۰، [ص۱۶۰،و۳۳۵،] میں اس کے صحیح ہونے کی تاید کی ہے
۶۔ الصواعق : ۹۶،و۱۴۰،[۱۶۱،و۲۳۳،و۲۳۵]؛
۷۔ حاکم نے مستدرک: ۳: ۱۵۰[۳، ۱۶۳،ح ۴۷۱۸،]میں اور اس کے علاوہ دیگر لوگوں نے جیسے سیوطی وغیرہ نے بھی اس کو نقل کیا ہے ،الجامع الصغیر ، سیوطی ۲، ۷۱۶،ح ۹۶۲۳،؛ کنزالعماّل۱۲، ۹۶،ح ۳۴۱۵۶،]
۸۔ شفیعی شاھرودی ، منتخب از جامع الغدیر ،ص ۳۰۸.
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.