مختصر جواب:
مفصل جواب:
انہوں نے غدیر خم سے متعلق یہ اشعار نظم کئے ہیں
١۔ نطق اللسان عن الضمیرِ والبشر عنوان البشیرِ
٢۔ الآن اعفیت القلو ب من التقلقلِ والنفورِ
٣۔ وانجابتِ الظلماء عن وضحِ الصباح المستنیرِ
اس کے بعد کہتے ہیں:
٤۔ غدر السرور بنا وکا ن وفاہ یوم الغدیرِ
٥۔ یوم اطاف بہ الوص ی وقد تلقب بالامیرِ
٦۔ فتسل فیہ ورد عا ریة الغرامِ الی المعیرِ
٧۔ وابتز اعمار الہمومِ بطولِ اعمارِ السرورِ
٨۔ فلِغیرِ قلبِ من یعلل ہمہ نطف الخمورِ
٩۔لا تقنعن عند المطا لب بالقلیلِ من الکثیرِ
١٠۔ فتبرض الاطماعِ مثل تبرض الثمدِ الجرورِ
١١۔ ہذا اوان تطاول الحا جاتِ والاملِ القصیرِ
١٢۔ فانفح لنا من راحتی ک بلا القلیلِ ولا النزورِ
١٣۔ لا تحوجن الی العصا ب وانت فی الضرعِ الدرورِ
١٤۔ آثار شکرکِ فی فمی وسمات ودکِ فی ضمیری
١٥۔ وقصیدة عذراء مث ل تالقِ الروضِ النضیرِ
١٦۔ فرحت بمالکِِ رِقِہا فرح الخمیلةِ بالغدیر (1) ۔
١۔ زبان ، ضمیر کی بات کہہ رہی ہے،خوش خلقی ،خوش خبری دینے کی علامت ہے ۔
٢۔ اب دل اضطراب اور نفرت سے پاک ہوگئے ۔
٣۔ روشنی کرنے والی صبح سے ظلمت و تاریکی ختم ہوگئی۔
اس کے بعد کہتے ہیں :
٤۔ سرور و خوشحالی نے ہم سے بے وفائی کی اور غدیر اس کی وفا کا بہترین موقع ہے ۔
٥۔ جس روز وصی نے ان کا احاطہ کرلیا اور اس وقت آپ کو امیر کا لقب دیا گیا تھا ۔
٦۔ پس اس روز امانت کو اس کے مالک تک واپس پلٹا دو ۔
٧۔ خوشی کے ساتھ لمبی زندگی بسر کرنے کو غمگین زندگی پر ڈھانپ دو ۔
٨۔ کسی قلب کے غموں کو شراب زلال سے برطرف کرنے کے لئے تمہارے قلب کے علاوہ کون ہے ۔
٩۔ زیادہ مطالبہ کرتے وقت کم پر قناعت مت کرو ۔
١٠۔ کم پر قناعت کرنے کی درخواست کرنا ایسے کم پانی پر قناعت کرناہے جو پانی کنویں کی گہرائی میں ہے ۔
١١۔ اب وہ وقت ہے جب حاجتیں پوری ہوتی ہیں اور چھوٹی آروزئیں بڑی آروز میں تبدیل ہوجاتی ہیں ۔
١٢۔ پس اپنی نسیم روح افزا کو زیادہ مقدار میں ہماری طرف سے گذار۔
١٣۔ تجھے یا ر و مددگار اور نوکر و ملازم کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تو بہت زیادہ دودھ دینے والے پستانوں کے درمیان میں ہے ۔
١٤۔ تیرے شکر کا اثر میری زبان میں ہے اور تیری دوستی اور محبت کی علامت میرے دل میں ہے ۔
١٥۔ اور میرا یہ قصیدہ سبزو شاداب باغ کی طرح چمک رہا ہے ۔
١٦۔ جو اپنے مالک سے خشنود ہوتا ہے اسی طرح جس جس طرح بہت زیادہ درخت غدیر کے پانی سے خشنود ہوتے ہیں (٢) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.