مختصر جواب:
مفصل جواب:
سؤال :کیا ابن تیمیہ کا کہنا صحیح ہے کہ وہ حدیث جس میں رسول اسلام نے علی (علیہ السلام) کو اپنا بھائی بنایا ہے جعلی اور گڑھی ہوئی ہے ، ؟
جواب : وہ کہتا ہے کہ حدیث (مؤخات ) یعنی جس میں رسول اسلام نے علی علیہ السلام کو اپنا بھائی معین کیا اور مھاجرین وا نصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ، یہ جعلی اور گڑھی ہوئی ہے ، اس لیے کہ پغمبر اسلام نے کسی کو اپنا بھائی نہین بنایا اور نہ ہی مھاجرین و انصار کے درمیان کسی کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ، بلکہ جو بات مسلمّ ہے وہ یہ ہے کہ مھاجرین اور انصار کے درمیان رسول اسلام نے بھائی چارگی قایم کی ،جیسے سعد بن ربیع اور عبد الرحمنٰ بن عوف و سلمان فارسی اور ابو درداء کے درمیان صیغہ أخوت قایم فرمایا ، جیسا کہ صحیح روایات سے یہ ثابت ہوا ہے (۱)
ہم اُس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ابن تیمیہ کا اس حدیث کو باطل قرار دینا جس میں رسول اسلام نے تمام مسلمانوں کے درمیان بھائی چارگی قایم کی تھی یہ حدیث بدون استثنا ثابت اور قطعی ہے ، اس کو باطل قرار دینے والا یا تو نھایت ہی جاھل ہے یا پھر وہ سیرۃ سے نا آشنا ہے یا پھر علی علیہ السلام کی طرف سے اس کے اندر کینہ بغض و حسد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے علی علیہ السلام کے فضایل ان کی عظمت و بلندی کا وہ انکار کرتا ہے اس کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی ،
کیونکہ اس نے اپنے نفس کے ساتھ یہ عھد کیا ہوا ہےاور قسم کھائی ہوئی ہے کہ علی علیہ السلام کے جتنے بھی فضایل ہیں یا تو ان کا انکار کرنا یا ان کو ضعیف قرار دینا، بہر حال اس کی یہ تمام باتیں فضول اور بغیر دلیل کے ہیں ،
جبکہ یہ واقعہ دو مرتبہ واقع ہوا ہے
ا۔ ایک مرتبہ رسول اسلام نےاپنےاصحاب کےدرمیان ھجرت سے قبل صیغہ اخوت قایم فرمایا ،
۲۔ دوسری مرتبہ مھاجرین اور انصار کے درمیان ھجرت کے بعد بھائی چارہ قایم کیا اور دونوں مرتبہ رسول اسلام نے علی علیہ السلام کو اپنا بھائی معین فرمایا ،
ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب (فتح الباری ) (۲) میں ایک عمدہ بات کہی ہے جو ابن تیمیہ کی افکار کو خاکستر کرنے کے لیے کافی ہے اس نے ان دونوں واقعات کو جن میں رسول اسلام نے لوگوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے ذکر کیا ہے اور بعض احادیث کو بھی ذکر کیا ہے ،
ابن تیمیہ نے ابن مطھر حلی رافضی (علامہ حلیّ ) کی ردّ میں ایک کتاب لکھی (۳) جس میں اس نے مھاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارگی قایم ہونے اور رسول اسلام کا علی علیہ السلام کو اپنا بھائی بنانے کا انکار کیا ہے ،پھر کہتا ہے کہ اس کی حکمت یہ ہے کہ بعض مھاجرین اورانصار ایک دوسرے کی مدد کریں تاکہ ان کے دل ایک دوسرے سے قریب ہوجایءں لہذا رسول اسلام کا کسی مھاجر کو اپنا بھائی بنانا یا کسی مھاجر کو کسی دوسر کا بھائی بنانا یہ بات بھودی ہے ، لیکن ابن تیمیہ نے یہ ردّ نص کے مقابلہ میں قیاس کی ہے تاکہ لوگوں کو اس بھائی چارگی کی مصلحت وحکمت سے غافل کرے ، کیونکہ بعض مھاجرین مال اور قبیلہ و طاقت کے حوالے سے دیگر لوگوں سے بہت کمزور تھے اس وجہ رسول اسلام نے طاقت ور اور ضعیف کے درمیان بھائی چارگی قایم کی اسی طرح سے مالدار اور غیر مال دار میں اخوت قایم فرمائی تاکہ ان کے درمیان دوستی ومحبت برقرار رہے ، لہذا اس واقعہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے اور علی علیہ السلام کے درمیان صیغہ اخوت قایم کیا کیونکہ علی علیہ اسلام بچپنے ہی سی رسول اسلام کے ساتھ رہتے تھے اور آپ کی پرورش رسول اسلام کے ہی ہاتھوں پر ہوئی ہے ، (۴)
ا۔ منھاج السنۃّ ۲: ۱۱۹،
۲۔ فتح الباری ۷: ۲۱۷، [۷، ۲۷۱،
۳۔ اس کتاب سے مراد یہی کتاب منھاج السنۃّ ہے
۴۔ شفیعی شاھرودی ، منتخب از جامع الغدیر ،ص ۳۰۸،
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.