مختصر جواب:
مفصل جواب:
سؤال : کیا ابن تیمیہ کا یہ کہنا صحیح ہے کہ حدیث ( سدّ الابواب ) کو شیعوں نے گڑھا ہے ،؟
جواب : اس حدیث کے گڑھنے کی نسبت شیعوں کی طرف دینا سوائے بے شرمی اور فضول وبھودہ باتیں کرنے سے جو حقایق ثابت ہیں وہ شور غل کرنے یا چیخ وپکار کرنے سے چھپ نہیں سکتے ، کیونکہ اہل سنتّ کی کتابیں اور خاص کر امام احمد کی کتاب ،،مسند ،، جو اس کی نظروں کے سامنے تھی اسنے اس حدیث کو مختلف اسانید کے ساتھ ذکر کیا ہے ، اور بعض لوگوں نے اس حدیث کو صحیح اور بعض نے اس کو حسن کہا ہے و نیز اصحاب میں سے بہت سے صحابہ نے کہ جن کی تعدا د تقریبا حدّ تواتر کو پہونچتی ہے اس حدیث کو نقل کیا ہے ، جیسے ،
۱۔ زید ابن ارقم کہتے ہیں : کہ اصحاب میں بعض اصحاب کے دروازے مسجد میں کھلے تھے اور ان کا ان ہی سے آنا جانا بھی تھا ایک روز پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلوسلم ) نے ان لوگوں سے فرمایا ( سدُّواھذا الابواب اِلاّ باب علیّ )(۱)ان تمام دروازوں کو بند کردیا جائے سوائے علی کے ،
۲۔ عبد اللہ بن عمر بن خطاّب : کہتا ہے کہ (لقد اُتیی علی ابن ابی طالب ثلاث خصال ، لآن تکون لی حصلۃ منھا أحب اِلیّ من أن أعطی حمر النعم ، قیل وما ھنّ یا امیر المومینن ؟ قال : تزّوجہ بنت رسول اللہ ، وسکناہ المسجد مع رسول اللہ یحلّ لہ فیہ ما یحلّ لہ ، والرایۃ یومخیبر)(۲) تیں خصلتیں جو علی ابن ابی طالب کو دی گیں ہیں گر وہ مجھکو مل جاتی تو وہ میرے لیے سرخ رنگ کے بالوں والے اونٹوں کہیں زیادہ بہتر ہوتیں ، لوگوں معلوم کیا یا امیرالمومینن وہ کیا ہیں ، کہا اول علی کا پیغمبر اسلام کی بیٹی فاطمہ سے شادی کرنا ، دوم ، پیغمبر اسلام کے ساتھ مسجد میں سکونت کرنا ہر وہ چیز جو رسول اسلام کے لیے حلال تھی وہی ان کے لیے بھی حلال تھی ، سوم خیبر کے دن ان کے ہاتھ میں علم دے دیا ،
۳۔ عمر بن خطاّب :ابو ھریرہ نے عمر سے نقل کیا ہے (لقد اُ عطیی علی ابن ابی طالب ثلاث خصال ، لآن تکون لی حصلۃ منھا أحب اِلیّ من أن أعطی حمر النعم ، قیل: وما ھنّ یا امیر المومینن ؟ قال : تزّوجہ بنت رسول اللہ ، وسکناہ المسجد مع رسول اللہ یحلّ لہ فیہ ما یحلّلہ ، والرایۃ یوم خیبر)(۳) تیں خصلتیں جو علی ابن ابی طالب کو دی گیں ہیں گر وہ مجھکو مل جاتی تو وہ میرے لیے سرخ رنگ کے بالوں والے اونٹوں کہیں زیادہ بہتر ہوتیں ، لوگوں معلوم کیا یا امیرالمومینن وہ کیا ہیں ، کہا اول علی کا پیغمبر اسلام کی بیٹی فاطمہ سے شادی کرنا ، دوم ، پیغمبر اسلام کے ساتھ مسجد میں سکونت کرنا ہر وہ چیز جو رسول اسلام کے لیے حلال تھی وہی ان کے لیے بھی حلال تھی ، سوم خیبر کے دن ان کے ہاتھ میں علم دے دیا ،
ابو بکر کی پیغمبر اسلام سے دوستی اور اس کی کھڑکی کا مسجد میں کھلا رہنا اس حدیث کو صحیح سمجھنا یہ دھوکہ سے کم نہیں ہے جیسا کہ ابن ابی الحدید نے (نھج البلاغہ )(۴)کی شرح میں کہا ہے : کہ یہ حدیث اس حدیث کے مقابلہ میں گھڑی گی ہے جس کو ہم نے ابھی ذکر کیا ہے، اور خاص علی علیہ السلام کے دروازہ کو بند کرانے والی حدیث ابو بکر کے طرفداروں نے بنائی ہے اور اس میں نام تبدیل کرڈالا اور علی علیہ السلام کے نام کے بجاے ابوبکر کا لکھدیا ، ونیز اس حدیث کے جعلی اور گھڑی ہوئی ہونے کی علامت اہل تحقیق پر واضح ہے اور وہ علامتیں یاوہ نشانی اس طرح سے ہیں ،
۱۔ اگر اس حدیث میں تھوڑا دقتّ کریں تو بالکل واضح ہے کہ پیغمبر اسلام کا اصحاب کے دروازہ بند کرنے کا ھدف ومقصد کیا تھا کیونکہ آپ یہ چاہتے تھے کہ مسجد پاک صاف رہے اور ظاہری اور معنوی نجاست محفوظ رہے اور حالت جنابت میں کوئی مسجد سے عبور نہ کرے اور نہ ہی کوئی وہاں پر مجنب ہو، اور آپ نے اپنے اور علی کادرواز ہ اس لیے کھلا چھوڑا آپ کی طہارت کے لیے آیت تطہیر نازل ہوچکی تھی آپ اور علی دونوں ہر طرح کی ظاہری ومعنوی نجاست سے پاک وپاکیزہ تھے یہاں تک کہ وہ تمام چیزیں جو عام لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہیں آپ دونوں پر مرتب یااثرانداز نہیں ہوتی تھیں ، اس مطلب کو اور زیادہ واضح کرنے کیے لیےآپ کی توجہات کو بعض روایات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں ،
امیر المومینن علیہ السلام حالت جنابت میں مسجد میں داخل ہوجاتے تھے (۵) اور حالت جنابت ہی میں مسجد سے باہر نکل آتے تھے ، (۶) ونیز حالت جنابت مسجد میں آمد ورفت رکھتے تھے ، (۷) ابو سعید خدری نے پیغمبر اسلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے علی علیہ السلام کے لیے فرمایا ( لایحلُ لاحد أن یجنب فی ھذا المسجد غیری وغیرک ) (۸) اس مسجد میں کسی کے لیے بھی مجنب ہونا جاءز نہیں ہے سوائے میرے اور علی کے ، )
آپ نے دوسری حدیث میں فرمایا ( ألالایحل ُھذا المسجد لجنبُ ولا لحاءض الاّ لرسول اللہ وعلی وفاطمہ واالحسن والحسین ألاقد بینت لکمالاسماء أن لارضلّوا ، ) (۹) اگاہ ہوجاؤ کہ اس مسجد میں مجنب اور حاءزہ کے لیے داکل ہونا جاءز نہیں ہے سوائے رسول اللہ وعلی وفاطمہ وحسن وحسین کےاور یہ بھی جان لوکہ میں نے ان ناموں کو تمہارے لیے ذکر بھی کردیا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو،
اور ان تمام باتوں سے روشن اور واضح تربات یہ ہے کہ ان کا دروازہ کھلا رہنا اور خداکا اپنے رسول کو اجازت دینا یہ آیت تطہرکے مطابق تھا کہ اللہ نے آپ کو ہر نجاست سے دور رکھا ،
۲۔ ان روایات کا مقتضا یہ ہے کہ تمام گھروں کے دروازہ بند کردئے جائیں اور صرف رسول اسلام اور چچا زاد بھائی علی ابن ابی طالب کا دروازہ کھلا رہے ، لیکن یہ حدیث کہ ابو بکر کی کھڑکی کھلی رہی یہ اس بات کی تصریح کرتی ہے کہ وہاں دروازں کے علاوہ لوگوں آنے جانے کے لیے چھوٹی چھوٹی کھڑکیا کھول رکھی تھیں لہذا ان دونوں باتوں کے درمیان کو زیادہ فاصلہ نہیں پایا جا تا ،
بعض لوگوں نے دونوں طرح کی حدیثوں کو جمع کیا ہے وہ احادیث جو علی علیہ السلام کے گھر کے دروازہ کھلنے پر دلالت کرتی ہیں اور وہ روایات جو ابوبکر کی کھڑکی کھلنے پر دلالت کرتی ہیں ان کی توجہیہ کی جاسکتی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ خاص کر لفظ (باب ) کے معنی دروازہ کے ہیں وہ احادیث جو علی علیہ السلام مربوط ہیں ان کو معنی حقیقی میں استعمال کیا جاے اور جو روایات ابوبکر سے مربوط ہیں ان کو معنی مجازی پر حمل کیا جائے کہ ان میں (باب ) کے معنی دروازہ کے نہیں بلکہ ان سے کھڑکی مراد لی گئی ہے ،
اور کہا بھی گیا ہے کہ (۱۰) جب دروازوں کو بند کرنے کے لیے اور وہ بند کرنے کے لیے لوگوں سے کہا گیا تو تمام نے اپنے دروازوں کو بند تو کرلیا لیکن ہریک نے چھوٹی چھوٹی کھڑکی اور چھوٹے چھوٹے سوراخ کھول لیے تھے تاکہ ان کے ذریعہ سے مسجد داخل ہوسکیں ،
لیکن بعد میں ان کے بھی بند کرنے کا حکم دے دیا گیا ، لیکن یہ توجیہ اور اس طرح کی جمع بھی قابل قبول نہیں کیونکہ یہ جمع جمع استحسانی اور تبرّعی ہے (۱۱ّ) کیونکہ اس پر کوئی دلیل یا کوئی شاہد دلالت نہیں کرتا ، چونکہ اس توجیہہ سے دروازہ بند کر نے جو ہدف ومقصد تھا وہ ختم ہوجاتا ہے ، اور مسجد سے دروازہ بند کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگ مسجدکو آنے جانے کاراستہ نہ بنالیں اور لوگ ان دروازوں سے مسجد میں داخل نہ ہوسکیں یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام کی نگہاوں کے سامنے اور آپ حکم کے بغیر کوئی وہاں سے کس طرح سے آجا سکتا ہے ؟ یہ کاملاً شارع مقدس کے مقصد وھدف کت خلاف ہے اور منغوض شارع بھی ہے ، اسی وجہ سے آپ کے دوبزرگ چچا جناب حمزہ اور جناب عباس نے یہ چاہا کہ ایک راستہ مشترک ہو جو ان دونوں کے لیے چھوڑ دیا جاے ، یا ان کے علاوہ بعض لوگوں نے نے یہ جاہا کہ ایک کھڑکی ہی مسجد میں کھلی رہے جس سے وہ مسجد کی زیارت کرسکیں ، اس کی بھی پیغمبر اسلام نے انکو اجازت نہیں دی ، اس لیے کہ وہ حکم کہ جو ایک غرض کے لیے ہو اس سے متعدد نام کے موضوع پیدا نہیں ہوسکتے اسی وجہ سے صرف (باب ) کہکر اس سے کھڑکی ارادہ کرنا یہ نہ تو مانع کو برطرف کرتا ہے اور نہ ہی موضوع کو بدل سکتا ہے (۱۲)
(۱)، مسند أحمد [۵، ۴۹۶،ح ۱۸۸۰۱]
(۲)، مسند أحمد ، ۲:۲۶[۲، ۱۰۴،ح ۴۷۸۲]
(۳)، المستدرک علی الصحیحین ۳، : ۱۲۵[۳، ۱۳۵،ح ۴۶۳۳]
(۴)، شرح نھج البلاغہ ۳، : ۱۷[۱۱،۴۹،خطبۃ نمبر ۲۰۳، ]
۵)، مراجعہ کریں : خصاءص أمیرالمومینن ۰علیہ السلام ) ) نسائی [ص ۴۶،ح ۴۳] والسنن الکبریٰ [۵، ۱۱۹، ح ۸۴۲۸]
(۶)، مراجعہ کریں : المعجم الکبیر ،طبرانی [۲، ۲۴۶،ح ۲۰۳۱]۔
(۷)، مراجعہ کریں : فراءد السمطین [۱، ۲۰۵،شمارہ نمبر ۱۶۰،]
(۸)، ترمذی نے اہنی کتاب جامع میں ۲، :۲۱۴[۵، ۵۸۷،ح ۳۷۲۷،] اور بھیقی نے سنن میں ۷، ابن عساکر اپنی تاریخ میں [۱۲، ۱۸۵] ترجمہ الامام علی ابن ابی طالب (علیہ السلام چاپ تحقیق شدہ : شمارہ ۳۳۱] اور ابن حجر نے صواعق [ص۱۲۳] اور ابن حجر نے فتح الباری میں ۷، : ۷،۱۵] اور سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں : ۱۱۵ [ص۱۶۱] نقل کیا ہے
(۹) سنن بہیقی ۷۔: ۶۵،
(۱۰)، اس عبارت کو فتح الباری میں ج ۷، [۷۱۵] میں اور عمدۃ القاری میں ۷، : ۵۹۲، [۱۶،۱۷۶] اور نزل الابرار : ۳۷، [ص ۷۴، میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ،
(۱۱)، جمع استحسانی وتبرعی اس کو کہتے ہیں کہ جس پر کوئی شاہد یاکوئی دلیل غیر موجود نہ ہو،
(۱۲)، شفیعی شاہرودی منتخب از جامع الغدیر ،ص ۳۲۰.
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.