مختصر جواب:
مفصل جواب:
قرآن مجید کے سوره «اعراف» کی آیت۱۸۰میں اہلِ بہشت کی وضع وکیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی صفات بیان کی گئی ہیں ۔ اوّل دوزخیوں کی سف سےباہر نکالنے کے لئے لوگوں کو خدا کے اسماء حسنیٰ پر گہری توجہ دینے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے: خدا کے لئے بہترین نام ہیں اسے انہی کے ساتھ پکارُو (وَلِلّٰہِ الْاٴَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِھَا) ۔
اسماء حسنیٰ سے مراد پروردگار کی مختلف صفات ہیں جو سب اچھی اور سب کی سب حسنیٰ ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ خداوندعالم ہے، قادر ہے، رازق ہے، عادل ہے، جواد ہے، کریم ہے، رحیم ہے اور اسی طرح اس کی اور بھی بہت سی صفات ہیں ۔
خدا کو ان ناموںکے ساتھ پکارنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ ان الفاظ کو ہم اپنی زبان پر جاری کرلیں، مثلاً ہم کہیں یا عالم، یا قادر، یا ”ارحم الراحمین“ بلکہ چاہیے یہ کہ ہم ان صفات کو حتی المقدور اپنے اندر پیدا کریں ۔ خدا کے علم ودانش کا پرتو، اس کی قدرت وتوانائی کی ایک کرن اور اس کی وسیع رحمت کا ایک اہم ذرّہ ہم ہیں اور ہمارے معاشرے میں عمل شکل اختیار کرلے، دوسرے لفظوں میں اس جیسے اوصاف خود میں پیدا کریں اور اس کے اخلاقِ حسنیٰ کو اپنائیں اور اُسے مسعل راہ بنائیں تاکہ اس علم وقدرت اور اسی عدالت ورحمت کے سائے میں ہم اپنے آپ کو اور اس معاشرے کو جس میں زندگی بسرے کررہے ہیں دوزخیوں کی سف سے نکال لیں ۔
اس کے بعد خدا لوگوں کو اس بات سے ڈراتا ہے کہ وہ اُس کے ناموں میں تحریف نہ کریں لہٰذا ارشاد ہوتا ہے: انھیں چھوڑدو جو خدا کے ناموں میں ردّوبدل کرتے ہیں وہ عنقریب اپنے بُرے اعمال کی سزا پائیں گے (وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی اٴَسْمَائِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ) ۔
”الحاد“ اصل میں ”لحد“ (بروزن مہد) اس گڑھے کے معنی میں ہے جو ایک ہی طرف ہو اسی بناپر گڑا جو قبر کی ایک طرف ہو اسے لحد کہتے ہیں ۔ اس کے بعد ہر سا کام کو الحاد کہا جانے لگا جو اعدال اور وسط کی حد سے افراط وتفریط کی طرف مائل ہو۔ شرک وبت پرستی پر بھی اسی وجہ سے الحاد کا اطلاق ہوتا ہے ۔
اسماء خدا میں الحاد سے مراد یہ ہے کہ ہم ان کے ان الفاظ اور مطالب کو تبدیل کردیں یا اسے اوصاف کے ساتھ متصف کریں کہ جو خدا کے شایانِ شان نہ ہو۔ عیسائیوں کی طرح جو تین خداؤں کو مانتے ہیں یا یہ کہ خدا کی صفات کو اس کی مخلوق پر منطبق کریں بت پرستوں کی طرح جو بتوں کے ناموں کو خدا کے نام سے اخذ کرتے تھے مثلاً ایک بت کو ”اللات“ دوسرے کو ”العزیٰ“ اور تیسرے کو ”منات“ کہتے تھے جو بالترتیب ”الله“، ”العزیز“ اور ”المنّان“ سے مشتقتھے ۔ یا مثل عیسائیوں کے جو خدا کا نام عیسیٰ اور روح القدس کودیتے ہیں ۔
یا یہ کہ اس کی صفات میں اس طرح ردّوبدل کریں کہ جس کا نتیجہ مخلوقات سے تشبیہ یا صفات کی تعطیل یا اس قسم کی کوئی چیز ہو یا صرف نامک پر اکتفاء کریں بغیر اس کے کہ ان صفات کو اپنے اُوپر یا اپنے معاشرے پر منطبق کریں ۔
آخری آیت میں دو حصّوں کی طرف کہ جو بہشتی گروہ کی بنیادی صفات ہیں، اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان میں سے کہ جنھیں ہم نے خلق کیا ہے ایک امّت اور گروہ ایسا ہے جو لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اور حق کے مطابق حکم کرتا ہے (وَمِمَّنْ خَلَقْنَا اٴُمَّةٌ یَھْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِہِ یَعْدِلُونَ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے دو واضح پروگرام اور ان کی حکومت حق اور حقیقت کی بنیاد پر قائم ہے ۔
چند اہم نکات
۱۔ اسماء حسنیٰ کیا ہیں: شیعہ وسنّی کتب وتفسیر میں اسماء حسنیٰ کے سلسلہ میں تفصیلی ملتی ہیں کہ جن کا خلاصہ اور اپنا نکتہٴ نظر ہم یہاں پر بیان کرتے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ ”اسماء حسنیٰ “ کا مطلب ”اچھے نام“ ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ پروردگار کے سب نام اچھے اپنے اندر اچھے مفاہیم ہی رکھتے ہیں تو اس بناپر اس کے سب نام ہی حسنیٰ ہیں ۔ قطع نظر اس کے کہ وہ ذات پاک کی صفات ثبوتیہ میں سے ہوں مثلاً ”عالم وقار“یا یہ کہ ذات مقدس کی صفات سلبیہ میں سے ہوں ۔ جیسا کہ ”قدوس“ یا وہ جو صفات فعل ہیں جو اس کے کسی فعل کی ترجمانی کرتی ہیں مثلاً خالق ، غفور، رحمٰن اور رحیم۔
دوسری طرف اس میں بھی شک نہیں کہ صفات باری تعالیٰ کا احاطہ اور شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے کمالات اور لامحدود ہیں اور اس کے ہر کمال کے لئے کوئی نام اور صفت ہم انتخاب کرسکتے ہیں، لیکن جیسا کہ احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی صفات میں سے بعض بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں اور ”اسماء حسنیٰ“ جوکہ اُوپر والی آیت میں آئے ہیں شاید ان میں ممتازتر صفات کی طرف اشارہ ہو کیونکہ وہ روایات جو پیغمبر اکرماور آئمہ اہلبیت(علیه السلام) سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں بارہا یہ مطلب نظر سے گذرا ہے کہ خدا کے ننانوے نام ہیں اور جو شخص بھی اسے ان ناموں کے ساتھ پکارے اس کی دعا مستجاب ہوگی اور جو انھیں شمار کرے وہ اہل بہشت میں سے ہے ۔
مثلاً وہ روایت جو کتاب توحیدِ صدوقۺ میں امام صادق علیہ السلام نے اپنے آباء واجداد کے حوالہ سے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ پیغمبر نے فرمایا:
”إنّ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ تسعة وتسعین إسماً، ماٴة الّا واحدة، من اٴحصاھا دخل الجنة)
”الله تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو انھیں شمار کرے جنت میں داخل ہوگا“
نیز کتاب توحید ہی میں امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام سے ان کے اباء واجداد کے حوالے سے حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”إنّ اللّٰہ عزّوجلّ تسعة وتسعین إسماً مَن دَعا اللّٰہ بھا استجاب لہ ومن اٴحصاھا دخل الجنة)
”یعنی خدا تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو ان کے ذریعے الله کو پکارے اُس کی دعا مستجاب ہوگی اور جو انھیں شمار کرے جنت میں داخل ہوگا“
صحیح مسلم، بخاری، ترمذی اور اہل سنت کی دیگر کتب احادیث میں بھی یہی مضمون خدا کے ننانوے ناموں کے بارے میں درج ہے اور یہ بھی کہ جو خص خدا کو اُن کے ساتھ پکارے اس کی دعا قبول ہوگی یا جو شخص انھیں شمار کرے وہ اہلِ بہشت میں سے ہوگا ان میں سے بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ننانوے نام قرآن مجید میں ہیں، مثلاً وہ روایت جو ابنِ عباس سے منقول ہے کہ پیغمبر نے فرمایا:
”للّٰہِ تسعة وتسعون إسماً من اٴحساھا دخل الجنة وھی فی القرآن“
الله کے ننانوے نام گننے والا جنت میں جائے گا اور وہ قرآن میں ہیں ۔۱
اسماء حسنیٰ سے مراد پروردگار کی مختلف صفات ہیں جو سب اچھی اور سب کی سب حسنیٰ ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ خداوندعالم ہے، قادر ہے، رازق ہے، عادل ہے، جواد ہے، کریم ہے، رحیم ہے اور اسی طرح اس کی اور بھی بہت سی صفات ہیں ۔
خدا کو ان ناموںکے ساتھ پکارنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ ان الفاظ کو ہم اپنی زبان پر جاری کرلیں، مثلاً ہم کہیں یا عالم، یا قادر، یا ”ارحم الراحمین“ بلکہ چاہیے یہ کہ ہم ان صفات کو حتی المقدور اپنے اندر پیدا کریں ۔ خدا کے علم ودانش کا پرتو، اس کی قدرت وتوانائی کی ایک کرن اور اس کی وسیع رحمت کا ایک اہم ذرّہ ہم ہیں اور ہمارے معاشرے میں عمل شکل اختیار کرلے، دوسرے لفظوں میں اس جیسے اوصاف خود میں پیدا کریں اور اس کے اخلاقِ حسنیٰ کو اپنائیں اور اُسے مسعل راہ بنائیں تاکہ اس علم وقدرت اور اسی عدالت ورحمت کے سائے میں ہم اپنے آپ کو اور اس معاشرے کو جس میں زندگی بسرے کررہے ہیں دوزخیوں کی سف سے نکال لیں ۔
اس کے بعد خدا لوگوں کو اس بات سے ڈراتا ہے کہ وہ اُس کے ناموں میں تحریف نہ کریں لہٰذا ارشاد ہوتا ہے: انھیں چھوڑدو جو خدا کے ناموں میں ردّوبدل کرتے ہیں وہ عنقریب اپنے بُرے اعمال کی سزا پائیں گے (وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی اٴَسْمَائِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ) ۔
”الحاد“ اصل میں ”لحد“ (بروزن مہد) اس گڑھے کے معنی میں ہے جو ایک ہی طرف ہو اسی بناپر گڑا جو قبر کی ایک طرف ہو اسے لحد کہتے ہیں ۔ اس کے بعد ہر سا کام کو الحاد کہا جانے لگا جو اعدال اور وسط کی حد سے افراط وتفریط کی طرف مائل ہو۔ شرک وبت پرستی پر بھی اسی وجہ سے الحاد کا اطلاق ہوتا ہے ۔
اسماء خدا میں الحاد سے مراد یہ ہے کہ ہم ان کے ان الفاظ اور مطالب کو تبدیل کردیں یا اسے اوصاف کے ساتھ متصف کریں کہ جو خدا کے شایانِ شان نہ ہو۔ عیسائیوں کی طرح جو تین خداؤں کو مانتے ہیں یا یہ کہ خدا کی صفات کو اس کی مخلوق پر منطبق کریں بت پرستوں کی طرح جو بتوں کے ناموں کو خدا کے نام سے اخذ کرتے تھے مثلاً ایک بت کو ”اللات“ دوسرے کو ”العزیٰ“ اور تیسرے کو ”منات“ کہتے تھے جو بالترتیب ”الله“، ”العزیز“ اور ”المنّان“ سے مشتقتھے ۔ یا مثل عیسائیوں کے جو خدا کا نام عیسیٰ اور روح القدس کودیتے ہیں ۔
یا یہ کہ اس کی صفات میں اس طرح ردّوبدل کریں کہ جس کا نتیجہ مخلوقات سے تشبیہ یا صفات کی تعطیل یا اس قسم کی کوئی چیز ہو یا صرف نامک پر اکتفاء کریں بغیر اس کے کہ ان صفات کو اپنے اُوپر یا اپنے معاشرے پر منطبق کریں ۔
آخری آیت میں دو حصّوں کی طرف کہ جو بہشتی گروہ کی بنیادی صفات ہیں، اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان میں سے کہ جنھیں ہم نے خلق کیا ہے ایک امّت اور گروہ ایسا ہے جو لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اور حق کے مطابق حکم کرتا ہے (وَمِمَّنْ خَلَقْنَا اٴُمَّةٌ یَھْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِہِ یَعْدِلُونَ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے دو واضح پروگرام اور ان کی حکومت حق اور حقیقت کی بنیاد پر قائم ہے ۔
چند اہم نکات
۱۔ اسماء حسنیٰ کیا ہیں: شیعہ وسنّی کتب وتفسیر میں اسماء حسنیٰ کے سلسلہ میں تفصیلی ملتی ہیں کہ جن کا خلاصہ اور اپنا نکتہٴ نظر ہم یہاں پر بیان کرتے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ ”اسماء حسنیٰ “ کا مطلب ”اچھے نام“ ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ پروردگار کے سب نام اچھے اپنے اندر اچھے مفاہیم ہی رکھتے ہیں تو اس بناپر اس کے سب نام ہی حسنیٰ ہیں ۔ قطع نظر اس کے کہ وہ ذات پاک کی صفات ثبوتیہ میں سے ہوں مثلاً ”عالم وقار“یا یہ کہ ذات مقدس کی صفات سلبیہ میں سے ہوں ۔ جیسا کہ ”قدوس“ یا وہ جو صفات فعل ہیں جو اس کے کسی فعل کی ترجمانی کرتی ہیں مثلاً خالق ، غفور، رحمٰن اور رحیم۔
دوسری طرف اس میں بھی شک نہیں کہ صفات باری تعالیٰ کا احاطہ اور شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے کمالات اور لامحدود ہیں اور اس کے ہر کمال کے لئے کوئی نام اور صفت ہم انتخاب کرسکتے ہیں، لیکن جیسا کہ احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی صفات میں سے بعض بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں اور ”اسماء حسنیٰ“ جوکہ اُوپر والی آیت میں آئے ہیں شاید ان میں ممتازتر صفات کی طرف اشارہ ہو کیونکہ وہ روایات جو پیغمبر اکرماور آئمہ اہلبیت(علیه السلام) سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں بارہا یہ مطلب نظر سے گذرا ہے کہ خدا کے ننانوے نام ہیں اور جو شخص بھی اسے ان ناموں کے ساتھ پکارے اس کی دعا مستجاب ہوگی اور جو انھیں شمار کرے وہ اہل بہشت میں سے ہے ۔
مثلاً وہ روایت جو کتاب توحیدِ صدوقۺ میں امام صادق علیہ السلام نے اپنے آباء واجداد کے حوالہ سے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ پیغمبر نے فرمایا:
”إنّ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ تسعة وتسعین إسماً، ماٴة الّا واحدة، من اٴحصاھا دخل الجنة)
”الله تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو انھیں شمار کرے جنت میں داخل ہوگا“
نیز کتاب توحید ہی میں امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام سے ان کے اباء واجداد کے حوالے سے حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”إنّ اللّٰہ عزّوجلّ تسعة وتسعین إسماً مَن دَعا اللّٰہ بھا استجاب لہ ومن اٴحصاھا دخل الجنة)
”یعنی خدا تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو ان کے ذریعے الله کو پکارے اُس کی دعا مستجاب ہوگی اور جو انھیں شمار کرے جنت میں داخل ہوگا“
صحیح مسلم، بخاری، ترمذی اور اہل سنت کی دیگر کتب احادیث میں بھی یہی مضمون خدا کے ننانوے ناموں کے بارے میں درج ہے اور یہ بھی کہ جو خص خدا کو اُن کے ساتھ پکارے اس کی دعا قبول ہوگی یا جو شخص انھیں شمار کرے وہ اہلِ بہشت میں سے ہوگا ان میں سے بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ننانوے نام قرآن مجید میں ہیں، مثلاً وہ روایت جو ابنِ عباس سے منقول ہے کہ پیغمبر نے فرمایا:
”للّٰہِ تسعة وتسعون إسماً من اٴحساھا دخل الجنة وھی فی القرآن“
الله کے ننانوے نام گننے والا جنت میں جائے گا اور وہ قرآن میں ہیں ۔۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.