مختصر جواب:
مفصل جواب:
(بَلى مَنْ کَسَبَ سَیِّئَةً وَ أَحاطَتْ بِهِ خَطیئَتُهُ فَأُولئِکَ َ) ،،آثار گناہ نے احاطہ کرلیا ہے ” سے کیا مراد ہے : لفظ خطیئہ بہت سے مواقع پر ان گناہوں کو کہا جاتا ہے جو جان بوجھ کر سرزد نہ ہوئے ہوں لیکن محل بحث آیت میں گناہ کبیرہ کے معنی میں آیا ہے یا اس سے مراد ہے اثار گناہ جو انسان کے دل و جان پر مسلط ہوجاتے ہیں ۔
بہر حال احاطہ گناہ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس قدر گناہوں میں ڈوب جائے کہ اپنے لئے ایک ایسا قید خانہ بنالے جس کے سوراخ بند ہوں ۔
اس کی توضیح یوں ہے کہ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا ابتدا ء میں ایک عمل ہوتا ہے ۔ پھر وہ ایک حالت و کیفیت میں بدل جاتا ہے اس کا دوام و تسلسل ملکہ و عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور جب وہ شدید ترین ہوجاتا ہے تو انسان کا وجود گناہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے ۔ یہ وہ حالت ہے جب کسی قسم کا پند و نصیحت ، موعظہ اور رہنماؤں کی رہنمائی اس کے وجود پر اثر انداز نہیں ہوتی اور حقیقت میں اپنے ہاتھوں اپنی یہ حالت بناتا ہے ۔ ایسے اشخاص ان کیڑوں کی مانند ہیں جو اپنے گرد جال تن لیتے ہیں جو انہیں قیدی بنا کر بالآخر ان کا گلا گھونٹ دیتا ہے ۔
واضح ہے کہ ایسے لوگوں کا انجام ہمیشہ جہنم میں رہنے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا ۔
کچھ آیات ہیں جن کے مطابق خدا صرف مشرکین کو نہیں بخشے گا لیکن غیر مشرک قابل بخشش ہیں مثلاَ : ان اللہ لا یغفران یشرک بہ و یغفر مادون ذٰلک لمن یشاٰء نساء ۔ ۴۸
ایسی آیا ت اور زیر بحث آیات جن میں ہمیشہ جہنم میں رہنے کا تذکرہ ہے اگر ان دونوں طرح کی آیات کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اسطرح کے گنہگار آخر کار گوہر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور وہ مشرک و بے ایمان ہو کر دنیا سے جاتے ہیں ۔
بہر حال احاطہ گناہ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس قدر گناہوں میں ڈوب جائے کہ اپنے لئے ایک ایسا قید خانہ بنالے جس کے سوراخ بند ہوں ۔
اس کی توضیح یوں ہے کہ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا ابتدا ء میں ایک عمل ہوتا ہے ۔ پھر وہ ایک حالت و کیفیت میں بدل جاتا ہے اس کا دوام و تسلسل ملکہ و عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور جب وہ شدید ترین ہوجاتا ہے تو انسان کا وجود گناہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے ۔ یہ وہ حالت ہے جب کسی قسم کا پند و نصیحت ، موعظہ اور رہنماؤں کی رہنمائی اس کے وجود پر اثر انداز نہیں ہوتی اور حقیقت میں اپنے ہاتھوں اپنی یہ حالت بناتا ہے ۔ ایسے اشخاص ان کیڑوں کی مانند ہیں جو اپنے گرد جال تن لیتے ہیں جو انہیں قیدی بنا کر بالآخر ان کا گلا گھونٹ دیتا ہے ۔
واضح ہے کہ ایسے لوگوں کا انجام ہمیشہ جہنم میں رہنے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا ۔
کچھ آیات ہیں جن کے مطابق خدا صرف مشرکین کو نہیں بخشے گا لیکن غیر مشرک قابل بخشش ہیں مثلاَ : ان اللہ لا یغفران یشرک بہ و یغفر مادون ذٰلک لمن یشاٰء نساء ۔ ۴۸
ایسی آیا ت اور زیر بحث آیات جن میں ہمیشہ جہنم میں رہنے کا تذکرہ ہے اگر ان دونوں طرح کی آیات کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اسطرح کے گنہگار آخر کار گوہر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور وہ مشرک و بے ایمان ہو کر دنیا سے جاتے ہیں ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.