مختصر جواب:
مفصل جواب:
قرآن کریم نے گزشتہ اقوام کی ہلاکت اور ختم ہوجانے کی دو اسباب بیان کئے ہیں اوروہ دو اسباب ""امر بالمعروف اور نہی عن المنکر"" کا فراموش ہونا ہے ۔
""فَلَوْ لا کانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِکُمْ أُولُوا بَقِیَّةٍ یَنْہَوْنَ عَنِ الْفَسادِ فِی الْأَرْض۔
تمہارے پہلے والے زمانوں اور نسلوں میں ایسے صاحبان عقل کیوں نہیں پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے (١) ۔
اسی طرح بنی اسرائیل کے اس گروہ کے بارے میں جو حضرت داؤد اور حضرت عیسی نبی کی لعنت کے مستحق پائے تھے فرماتا ہے:
کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ما کانوا یفعلون۔ (کیونکہ) وہ اپنے برے کاموں سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے اور بدترین کام کیا کرتے تھے (٢) ۔
واقعا یہ ان لوگوں کی بے پروائی اور سازش تھی کہ وہ گناہ گار لوگوں کو تشویق کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سب ہلاک ہوگئے ۔
ایک دوسری آیت میں خدا وندعالم نے اس اصل کو جاری کرتے ہوئے امت اسلامی کو ""برتر اور بہتر امت"" کے طور پر پہچنوایا ہے ، وہ فرماتا ہے:
کنتم خیر امة اخرجب للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ (٣) ۔
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔
اس آیت میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ امت کے بہترین ہونے کی دلیل ""امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور خدا پرایمان رکھنا ""ہے اور اس سے بھی زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ ""امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے بعد"" خدا پر ایمان"" کو بیا ن کیا ہے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ ان دونوں فریضوں کے بغیر خدا پر ایمان کی بنیادیں کمزور ہوجاتی ہیں اور اس کے ستون گرجاتے ہیں دوسر ے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ خدا پر ایمان ان دو فریضوں پر استوار ہے (٤) جس طرح کہ معاشرہ کے تمام امور کی اصلاح ان دو کاموں پر استوار ہے ۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
ان الامر بالمعروف و النھی عن المنکر فریضة عظیمة بھا تقوم الفرائض و تامن المذاھب و تحل المکاسب و ترد المظالم و تعمرالارض و ینتصف من الاعداء و یستقیم الامر۔ امر بالمعروف ونہی از منکر خدا کے دو بزرگ وظیفہ ہیں اور باقی دوسرے فرائض اس کی وجہ سے قائم ہوتے ہیں اور ان دو وسیلوں کے ذریعہ سے امن کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور لوگوں کی روزی روٹی انہی کے ذریعہ حلال ہوت ہے اور لوگوں کے حق ان تک پہنچتے ہیں اوران کے ذریعہ سے زمین آباد اور دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور ان دونوں کے وسیلہ سے تمام کام صحیح ہوجاتے ہیں(٥) ۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام بھی اپنے نورانی بیان میں فرماتے ہیں:
قوام الشریعة الامربالمعروف والنھی عن المنکر و اقامة الحدود ۔ شریعت کا استحکام امر بہ معروف ، نہی از منکر اور حدود الہی کو قائم کرنے پر استوار ہے (٦) ۔
ان پرمعنا روایات سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ اگر معاشرہ میں یہ دونوں فریضہ یعنی فتنہ وفسادکے مقابلے میں سب کی ذمہ داری ختم ہوجائے تو شریعت کے ستون گر جائیں گے اور آہستہ آہستہ دین کی بنیادیں ختم ہو جائیں گی اور معاشرہ کے امور فساد وتباہی میں ڈھل جائیں گے ۔
اسی وجہ سے پیغمبر اکرم نے امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے والوں کو زمین پر خدا کا نمائندہ اور پیغمبر وکتاب کا جانشین بتا یا ہے "" من امر بالمعروف و نہی عن المنکر فھو خلیفة اللہ فی ارضہ وخلیفة رسول اللہ و خلیفة کتابہ""(٧) ۔
حضرت علی علیہ السلام ان دواہم فریضوں کے مرتبے اور دوسرے فرایض کے مقابلے میں ان کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وما اعمال البر کلھا و الجھاد فی سبیل اللہ عند الامر بالمعروف و النھی عن المنکر الا کنفثة فی بحر لجی ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمام اعمال خیر اور جہاد فی سبیل اللہ ،امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ میں ایسے ہیں ، جیسے گہرے دریا میں لعاب دہن کے ریزے ہوں۔
اس تعبیر سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام میں اس موضوع کی کس حد تک اہمیت ہے اوراس موضوع کی اہمیت بے نظیر ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے دوسرے کلام میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کے تین مراحل کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
ایھاالمومنون انہ من رای عدوانا یعمل بہ ومنکرا یدعی الیہ فانکرہ بقلبہ فقد سلم و بری ومن انکرہ بلسانہ فقد اجر وھو افضل من صاحبہ ومنانکرہ بالسیف لتکون کلمة اللہ ھی العلیا وکلمة الظالمین ھی السفلی فذلک الذی اصاب سبیل الھدی وقام علی الطریق و نور فی قلبہ الیقین۔
اے اہل ایمان ! جو شخص دیکھے کہ ظلم وعدوان پر عمل ہورہا ہے اور برائی کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور وہ دل سے اُسے بُرا سمجھے تو وہ (عذاب سے) محفوظ ہے اور (گناہ سے ) بری ہوگیا اور جو زبان سے اُسے براکہے وہ ماجور ہے اور صرف دل سے برا سمجھنے والے سے افضل ہے اور جو شخص شمشیر بکف ہو کر اس برائی کے خلاف اس لئے کھڑا ہو جائے تاکہ اللہ کا بول بالا ہو اور ظالموں کی بات گرجائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کی راہ کو پالیا اور سیدھے راستے پر ہولیا اور اس کے دل میں یقین نے روشنی پھیلادی (٩) ۔
""فَلَوْ لا کانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِکُمْ أُولُوا بَقِیَّةٍ یَنْہَوْنَ عَنِ الْفَسادِ فِی الْأَرْض۔
تمہارے پہلے والے زمانوں اور نسلوں میں ایسے صاحبان عقل کیوں نہیں پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے (١) ۔
اسی طرح بنی اسرائیل کے اس گروہ کے بارے میں جو حضرت داؤد اور حضرت عیسی نبی کی لعنت کے مستحق پائے تھے فرماتا ہے:
کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ما کانوا یفعلون۔ (کیونکہ) وہ اپنے برے کاموں سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے اور بدترین کام کیا کرتے تھے (٢) ۔
واقعا یہ ان لوگوں کی بے پروائی اور سازش تھی کہ وہ گناہ گار لوگوں کو تشویق کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سب ہلاک ہوگئے ۔
ایک دوسری آیت میں خدا وندعالم نے اس اصل کو جاری کرتے ہوئے امت اسلامی کو ""برتر اور بہتر امت"" کے طور پر پہچنوایا ہے ، وہ فرماتا ہے:
کنتم خیر امة اخرجب للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ (٣) ۔
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔
اس آیت میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ امت کے بہترین ہونے کی دلیل ""امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور خدا پرایمان رکھنا ""ہے اور اس سے بھی زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ ""امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے بعد"" خدا پر ایمان"" کو بیا ن کیا ہے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ ان دونوں فریضوں کے بغیر خدا پر ایمان کی بنیادیں کمزور ہوجاتی ہیں اور اس کے ستون گرجاتے ہیں دوسر ے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ خدا پر ایمان ان دو فریضوں پر استوار ہے (٤) جس طرح کہ معاشرہ کے تمام امور کی اصلاح ان دو کاموں پر استوار ہے ۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
ان الامر بالمعروف و النھی عن المنکر فریضة عظیمة بھا تقوم الفرائض و تامن المذاھب و تحل المکاسب و ترد المظالم و تعمرالارض و ینتصف من الاعداء و یستقیم الامر۔ امر بالمعروف ونہی از منکر خدا کے دو بزرگ وظیفہ ہیں اور باقی دوسرے فرائض اس کی وجہ سے قائم ہوتے ہیں اور ان دو وسیلوں کے ذریعہ سے امن کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور لوگوں کی روزی روٹی انہی کے ذریعہ حلال ہوت ہے اور لوگوں کے حق ان تک پہنچتے ہیں اوران کے ذریعہ سے زمین آباد اور دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور ان دونوں کے وسیلہ سے تمام کام صحیح ہوجاتے ہیں(٥) ۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام بھی اپنے نورانی بیان میں فرماتے ہیں:
قوام الشریعة الامربالمعروف والنھی عن المنکر و اقامة الحدود ۔ شریعت کا استحکام امر بہ معروف ، نہی از منکر اور حدود الہی کو قائم کرنے پر استوار ہے (٦) ۔
ان پرمعنا روایات سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ اگر معاشرہ میں یہ دونوں فریضہ یعنی فتنہ وفسادکے مقابلے میں سب کی ذمہ داری ختم ہوجائے تو شریعت کے ستون گر جائیں گے اور آہستہ آہستہ دین کی بنیادیں ختم ہو جائیں گی اور معاشرہ کے امور فساد وتباہی میں ڈھل جائیں گے ۔
اسی وجہ سے پیغمبر اکرم نے امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے والوں کو زمین پر خدا کا نمائندہ اور پیغمبر وکتاب کا جانشین بتا یا ہے "" من امر بالمعروف و نہی عن المنکر فھو خلیفة اللہ فی ارضہ وخلیفة رسول اللہ و خلیفة کتابہ""(٧) ۔
حضرت علی علیہ السلام ان دواہم فریضوں کے مرتبے اور دوسرے فرایض کے مقابلے میں ان کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وما اعمال البر کلھا و الجھاد فی سبیل اللہ عند الامر بالمعروف و النھی عن المنکر الا کنفثة فی بحر لجی ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمام اعمال خیر اور جہاد فی سبیل اللہ ،امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ میں ایسے ہیں ، جیسے گہرے دریا میں لعاب دہن کے ریزے ہوں۔
اس تعبیر سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام میں اس موضوع کی کس حد تک اہمیت ہے اوراس موضوع کی اہمیت بے نظیر ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے دوسرے کلام میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کے تین مراحل کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
ایھاالمومنون انہ من رای عدوانا یعمل بہ ومنکرا یدعی الیہ فانکرہ بقلبہ فقد سلم و بری ومن انکرہ بلسانہ فقد اجر وھو افضل من صاحبہ ومنانکرہ بالسیف لتکون کلمة اللہ ھی العلیا وکلمة الظالمین ھی السفلی فذلک الذی اصاب سبیل الھدی وقام علی الطریق و نور فی قلبہ الیقین۔
اے اہل ایمان ! جو شخص دیکھے کہ ظلم وعدوان پر عمل ہورہا ہے اور برائی کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور وہ دل سے اُسے بُرا سمجھے تو وہ (عذاب سے) محفوظ ہے اور (گناہ سے ) بری ہوگیا اور جو زبان سے اُسے براکہے وہ ماجور ہے اور صرف دل سے برا سمجھنے والے سے افضل ہے اور جو شخص شمشیر بکف ہو کر اس برائی کے خلاف اس لئے کھڑا ہو جائے تاکہ اللہ کا بول بالا ہو اور ظالموں کی بات گرجائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کی راہ کو پالیا اور سیدھے راستے پر ہولیا اور اس کے دل میں یقین نے روشنی پھیلادی (٩) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.