مختصر جواب:
مفصل جواب:
خداوندمتعال سوره «آل عمران» کی آیت نمبر ۶۱ میں اپنے پیغمبر (صلى الله علیه وآله وسلم) کو حکم دیتا ہے
کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کو ئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے ” مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچو ں ، عورتوں او ر نفسوں کو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوں اور عورتوں اور نفسوں کو بلا وٴ پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے ۔
" مباہلہ “ کی یہ صورت شاید قبل از این عرب میں مروج نہ تھی اور ایک ایسا راستہ ہے جو سوفی صد پیغمبر اکرم کے ایمان اور دعوت کی صداقت کا پتہ دیتا ہے ۔
کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آوٴ ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں ، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کردے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔
یہ مسلم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہو اتو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا ۔
کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اور سمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمنان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوتِ مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔
اسلامی روایات میں ہے کہ “ مباہلہ “ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تاکہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں ۔ مشورے کی یہ بات ان کی نفساتی حالت کی چغلی کھاتی ہے ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شو ر و غل ، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ ” مباہلہ“ کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور وغل کا سہارا لیا جائے اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جالینا چاہئیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صور میںان سے ”مباہلہ “ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے ۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین (علیه السلام) کو گود میںلئے حسن (علیه السلام) کا ہاتھ پکڑے اور علی (علیه السلام) و فاطمہ (علیه السلام) کو ہمراہ لئے آپہنچے ہیں اور انہیں فرمارہے ہیںکہ جب میں دعا کرو ، تم آمین کہنا ۔
عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے ۱
کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کو ئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے ” مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچو ں ، عورتوں او ر نفسوں کو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوں اور عورتوں اور نفسوں کو بلا وٴ پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے ۔
" مباہلہ “ کی یہ صورت شاید قبل از این عرب میں مروج نہ تھی اور ایک ایسا راستہ ہے جو سوفی صد پیغمبر اکرم کے ایمان اور دعوت کی صداقت کا پتہ دیتا ہے ۔
کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آوٴ ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں ، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کردے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔
یہ مسلم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہو اتو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا ۔
کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اور سمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمنان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوتِ مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔
اسلامی روایات میں ہے کہ “ مباہلہ “ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تاکہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں ۔ مشورے کی یہ بات ان کی نفساتی حالت کی چغلی کھاتی ہے ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شو ر و غل ، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ ” مباہلہ“ کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور وغل کا سہارا لیا جائے اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جالینا چاہئیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صور میںان سے ”مباہلہ “ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے ۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین (علیه السلام) کو گود میںلئے حسن (علیه السلام) کا ہاتھ پکڑے اور علی (علیه السلام) و فاطمہ (علیه السلام) کو ہمراہ لئے آپہنچے ہیں اور انہیں فرمارہے ہیںکہ جب میں دعا کرو ، تم آمین کہنا ۔
عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے ۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.