مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس سوال کا جواب سوره «بقره» کی آیت ۲۶۶ میں زکر ہوا ہے اس آیت میں اللہ نے مثال ذکر کی ہے ان لوگوں کی جو اللہ کی راہ میں ریاکاری سے خرچ کرتے ہیں ۔: کیاتم میں سے کوئی یہ پسند کرے گاکہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کاباغ ہوجس کے درختوں کے نیچے نہریں جا ری ہو ں ۔اس با غ میں اس کے لئے ہر طرح کا پھل مو جو د ہو لیکن وہ بڑھاپے کو پہنچ چکا ہواور اس کی اولاد (چھوٹی اور کمزور ہو)(ایسے میں) آگ کا زبردست بگولہ اٹھے اور جلاڈالے (جو لوگ خرچ کر کے ریا کاری ،احسان جتلا نے اور ایذارسانی کے ذریعے اس عمل کو باطل دیتے ہیں ان کی حالت ایسی ہے )خدا اس طرح اپنی آیات آشکا ر کر تا ہے کہ شاید تم غوروفکر کرو (اور سوچ سمجھ کر راہ حق پا لو)۔
یود احدکم ان تکون لہ الجنة۔۔۔۔۔۔۔"
انسان کو روز قیامت اعمال صالح کی سخت ضرورت ہوگی نیز ریاکاری ، احسان جتلانا اور کسی کو تکلیف پہنچانا انفاق اور عمل صالح کو ضائع کر دیتا ہے یہ مطالب واضح کر نے کے لئے زیر آیت میں ایک عمدہ مثال بیان کی گئی ہے ۔
یہ ایسے شخص کی مثال ہے جس کا سر سبز وشاداب باغ ہو اس میں کھجوروں اور انگور جیسے طرح طرح کے پھل دار درخت ہوں ،درختوں کے نیچے پا نی بہتا رہتا ہواور آبیاری کی احتیا ج نہ ہو۔وہ شخص بوڑھا ہو چکا ۔ اس کی اولا ابھی کمزور وناتواں ہو اور ان کی زندگی کا دار ومدار اسی باغ پر ہو ۔اب اگر یہ باغ اجڑ جا ئے تو وہ اور اس کی اولا اداس آبا د نہیں کرسکتے ۔اگر اچانک آتش با رآندھی کے گولے اس باغ پر بر سنے لگیں اور اسے جلاکر خا کستر کردیں تو اس وقت وہ بوڑھاشخص جوجوانی کی توانائیاں کھو چکا ہے اور کسی اور ذریعے سے اپنے اخراجا ت بھی پور ے نہیں کرسکتاتو اس کی حالت کیا ہوگی اور کیسی حسرت وغم کی کیفیت سے دوچار ہوگا ۔جو لوگ نیک عمل بجالاتے ہیں اور پھر ریا کاری ،احسان دھرنے اور اذیت دینے سے اسے ضائع کردیتے ہیں اسی شخص کی طرح ہیں جس نے محنت سے باغ تیار کیا ہواور جب پھل حاصل کرنے کی ضرورت ہو تواس کے کا م کانتیجہ بالکل برباد ہو جا ئے اور اس کے پا س حسرت واندوہ کے علاوہ کوئی چیز باقی نہ جا ئے ۔
"کذٰلک یبین اللہ لکم الاٰیٰت لعلکم تتفکرون “۔
تمام بد بختیوں کا سر چشمہ یہ ہے کہ غوروفکر سے کام نہ لیا جائے اس ضمن میں خصوصا ایسے کا م ہیں جوبےوقوف لوگ کرتے ہیں مثلا احسان جتلانا ، جن کا فائدہ بہت کم اور نقصان بڑی تیزی سے اور بہت زیا دہ ہوتا ہے اس لیے آیت کے آخر میں اللہ تعالی لوگوں کو غور فکر کر نے کی دعوت دیتا ہے اورفرماتا ہے:اس طرح خداتمہارے لیے اپنی آیات کی وضاحت کر تاہے کہ شاید تم غوروفکرکرو۔
چنداہم نکات
"واصابہ الکبر لہ ذریةضعفاء“یعنی باغ کا مالک بوڑھا ہو چکاہے اور اس کے بچے ابھی کمزور وناتواں ہیں ۔اس جملے سے معلوم ہو تا ہے کہ راہ خدا میں بخشش کرنا اور ضرورت مندوں کی مدد کر نا خرمے کے باغ کی طرح ہے جس کے پھلو ں سے انسان خود بھی بہر ہ مند ہو تاہے اور اس کی اولا د بھی جب کہ ریاکاری ،احسان دھرنااور ایذ ارسانی خود انسان کی اپنی محرومیت کا سبب منتی ہیں اور اس کی آئندہ نسلیں بھی اس سے محرومیت کا شکار ہوتی ہیں حالانکہ انہیں تو اس کے نیک اعمال اور ثمرات کافائدہ پہنچنا چاہیئے تھا
یہ بات اس امر کی بھی دلیل ہے کہ آئندہ نسلیں گذشتہ نسلوں کے اعمال نیک کے نتائج میں حصہ دار ہو تی ہیں ۔عام طور پر ایسا ہی ہو تا ہے کیو نکہ آباوٴاجداد اپنے نیک کاموں کی وجہ سے لوگوں کے افکا رمیں جو ایک محبو بیت اور اعتما د پیدا کر لیتے ہیں وہ ان کی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سر ما یہ ہو تا ہے ۔
"اعصار فیہ نار“ :یعنی ۔۔ہوا کا بگولہ جس میں آگ بھی ہو ۔ممکن ہے یہان بگولوں کی طرف اشارہ ہو جو با د سموم جلانے والی اور خشک کرنے والی ہو اہو تی ہے ۔ یا پھر اس سے وہ بگو لہ مراد ہے جو آگ کے الا وٴ سے گزرے اور عام طور پر بگولے کے راستے جو چیز آتی ہے و ہ اسے اپنے ساتھ لے اڑتا ہے تو ہو سکتا ہے وہ آگ کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پھینکے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ یہ صا عقہ کے سا تھ پڑنے والے بگولے کی طرف اشارہ ہو جو تمام چیزوں کو خاکستر کردے ۔بہر حا ل یہ فوری اور مکمل نابودی کی طرف اشارہ ہے (۱)
(۱) لغت میں اعصار کا معنی وہ بگولہ ہے جو ہو اکے چلتے وقت دومختلف سمتوں سے بنتا ہے اور عمودی شکل میں ہوتا ہے ۔اس کا ایک سر ا زمین سے لپٹا ہوتا ہے اور دوسرافضا میں ہو تا ہے
یود احدکم ان تکون لہ الجنة۔۔۔۔۔۔۔"
انسان کو روز قیامت اعمال صالح کی سخت ضرورت ہوگی نیز ریاکاری ، احسان جتلانا اور کسی کو تکلیف پہنچانا انفاق اور عمل صالح کو ضائع کر دیتا ہے یہ مطالب واضح کر نے کے لئے زیر آیت میں ایک عمدہ مثال بیان کی گئی ہے ۔
یہ ایسے شخص کی مثال ہے جس کا سر سبز وشاداب باغ ہو اس میں کھجوروں اور انگور جیسے طرح طرح کے پھل دار درخت ہوں ،درختوں کے نیچے پا نی بہتا رہتا ہواور آبیاری کی احتیا ج نہ ہو۔وہ شخص بوڑھا ہو چکا ۔ اس کی اولا ابھی کمزور وناتواں ہو اور ان کی زندگی کا دار ومدار اسی باغ پر ہو ۔اب اگر یہ باغ اجڑ جا ئے تو وہ اور اس کی اولا اداس آبا د نہیں کرسکتے ۔اگر اچانک آتش با رآندھی کے گولے اس باغ پر بر سنے لگیں اور اسے جلاکر خا کستر کردیں تو اس وقت وہ بوڑھاشخص جوجوانی کی توانائیاں کھو چکا ہے اور کسی اور ذریعے سے اپنے اخراجا ت بھی پور ے نہیں کرسکتاتو اس کی حالت کیا ہوگی اور کیسی حسرت وغم کی کیفیت سے دوچار ہوگا ۔جو لوگ نیک عمل بجالاتے ہیں اور پھر ریا کاری ،احسان دھرنے اور اذیت دینے سے اسے ضائع کردیتے ہیں اسی شخص کی طرح ہیں جس نے محنت سے باغ تیار کیا ہواور جب پھل حاصل کرنے کی ضرورت ہو تواس کے کا م کانتیجہ بالکل برباد ہو جا ئے اور اس کے پا س حسرت واندوہ کے علاوہ کوئی چیز باقی نہ جا ئے ۔
"کذٰلک یبین اللہ لکم الاٰیٰت لعلکم تتفکرون “۔
تمام بد بختیوں کا سر چشمہ یہ ہے کہ غوروفکر سے کام نہ لیا جائے اس ضمن میں خصوصا ایسے کا م ہیں جوبےوقوف لوگ کرتے ہیں مثلا احسان جتلانا ، جن کا فائدہ بہت کم اور نقصان بڑی تیزی سے اور بہت زیا دہ ہوتا ہے اس لیے آیت کے آخر میں اللہ تعالی لوگوں کو غور فکر کر نے کی دعوت دیتا ہے اورفرماتا ہے:اس طرح خداتمہارے لیے اپنی آیات کی وضاحت کر تاہے کہ شاید تم غوروفکرکرو۔
چنداہم نکات
"واصابہ الکبر لہ ذریةضعفاء“یعنی باغ کا مالک بوڑھا ہو چکاہے اور اس کے بچے ابھی کمزور وناتواں ہیں ۔اس جملے سے معلوم ہو تا ہے کہ راہ خدا میں بخشش کرنا اور ضرورت مندوں کی مدد کر نا خرمے کے باغ کی طرح ہے جس کے پھلو ں سے انسان خود بھی بہر ہ مند ہو تاہے اور اس کی اولا د بھی جب کہ ریاکاری ،احسان دھرنااور ایذ ارسانی خود انسان کی اپنی محرومیت کا سبب منتی ہیں اور اس کی آئندہ نسلیں بھی اس سے محرومیت کا شکار ہوتی ہیں حالانکہ انہیں تو اس کے نیک اعمال اور ثمرات کافائدہ پہنچنا چاہیئے تھا
یہ بات اس امر کی بھی دلیل ہے کہ آئندہ نسلیں گذشتہ نسلوں کے اعمال نیک کے نتائج میں حصہ دار ہو تی ہیں ۔عام طور پر ایسا ہی ہو تا ہے کیو نکہ آباوٴاجداد اپنے نیک کاموں کی وجہ سے لوگوں کے افکا رمیں جو ایک محبو بیت اور اعتما د پیدا کر لیتے ہیں وہ ان کی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سر ما یہ ہو تا ہے ۔
"اعصار فیہ نار“ :یعنی ۔۔ہوا کا بگولہ جس میں آگ بھی ہو ۔ممکن ہے یہان بگولوں کی طرف اشارہ ہو جو با د سموم جلانے والی اور خشک کرنے والی ہو اہو تی ہے ۔ یا پھر اس سے وہ بگو لہ مراد ہے جو آگ کے الا وٴ سے گزرے اور عام طور پر بگولے کے راستے جو چیز آتی ہے و ہ اسے اپنے ساتھ لے اڑتا ہے تو ہو سکتا ہے وہ آگ کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پھینکے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ یہ صا عقہ کے سا تھ پڑنے والے بگولے کی طرف اشارہ ہو جو تمام چیزوں کو خاکستر کردے ۔بہر حا ل یہ فوری اور مکمل نابودی کی طرف اشارہ ہے (۱)
(۱) لغت میں اعصار کا معنی وہ بگولہ ہے جو ہو اکے چلتے وقت دومختلف سمتوں سے بنتا ہے اور عمودی شکل میں ہوتا ہے ۔اس کا ایک سر ا زمین سے لپٹا ہوتا ہے اور دوسرافضا میں ہو تا ہے
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.