مختصر جواب:
مفصل جواب:
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ائمہ کی زندگی کے تمام پہلوئوں میں سے ایک ثقافتی پہلو تھا ، ان بزرگ راہنمائوں نے اپنے اپنے زمانہ میں ثقافتی کارکردگی انجام دی ہے اوراپنے مکاتب میں شاگردوں کی تربیت کی ہے اور اپنے علم کو ان کے ذریعہ معاشرہ میں منتشر کیا ہے ، لیکن اس وقت کے سیاسی اور اجتماعی حالات اور شرایط برابر نہیں تھے ،مثلا امام محمد باقر (علیہ السلام) اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے زمانہ میں حالات بہتر تھے ، اسی وجہ سے امام صادق (علیہ السلام) کے شاگرد اور راوی چار ہزار سے زیادہ تھے ، لیکن امام جواد (علیہ السلام) کے زمانہ سے امام عسکری (علیہ السلام) کے زمانہ تک سیاسی فشار اور دربارخلافت کی طرف سے نظر بندی اور سختی کی وجہ سے ان کی کارکردگی بہت محدود ہوگئی تھی ،اسی وجہ سے آپ کے مکتب کے تربیت یافتہ شاگردوں اور راویوں کی تعداد بہت کم تھی ۔ اس بناء پر امام جواد (علیہ السلام) کے شاگردوں اور اصحاب کی تعداد ایک سو دس کے نزدیک تھی اور مجموعی طور پر ٢٥٠حدیث آپ سے نقل ہوئی ہیں (٢) ۔ کیونکہ ایک طرف تو آپ بہت زیادہ مرقبت اور نظر بند کی زندگی بسر کررہے تھے اور دوسری طرف بہت جلد آپ کو شہید کردیا گیا اور تمام علماء کے نظریہ کے مطابق آپ کی عمر پچیس سال سے زیادہ نہیں ہوئی !
اس کے باوجود اس بات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ آپ کے ان محدود شاگردوں میں اکثر شاگرد بہت ہی زیادہ مشہور و معروف ہوئے ہیں جیسے : علی بن مہزیار ، احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی ، زکریا بن آدم ، محمد بن اسماعیل بن بزیع، حسین بن سعید اہوازی ، احمد بن محمد بن خالد برقی۔ ان تمام اصحاب کا شمار علمی اور فقہی میدان میں ہوتا تھا اور ان میں سے بعض کی متعدد تالیفات بھی تھیں ۔
اس کے علاوہ امام محمد تقی (علیہ السلام) کی احادیث کے راویوں کا شمار صرف صرف شیعہ محدثین میں نہیں ہوتا بلکہ اہل سنت کے محدثین اور علماء نے بھی اسلام کے حقایق اور تعلیمات کو آپ سے نقل کئے ہیں ، مثال کے طور پر خطیب بغدادی نے کچھ احادیث کو اپنے اسناد کے ساتھ امام جواد (علیہ السلام) سے نقل کی ہیں (٣) ۔
اسی طرح حافظ عبدالعزیز بن اخضر جنابذی نے کتاب معالم العترة الطاہرة (٤) میں اور دوسرے مولفین جیسے ابوبکر احمد بن ثابت، ابواسحاق ثعلبی اور محمد بن مندہ بن مہربذ نے اپنی تاریخ ا ور تفسیر کی کتابوں میں آپ سے روایتیں نقل کی ہیں (٥) (٦) ۔
اس کے باوجود اس بات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ آپ کے ان محدود شاگردوں میں اکثر شاگرد بہت ہی زیادہ مشہور و معروف ہوئے ہیں جیسے : علی بن مہزیار ، احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی ، زکریا بن آدم ، محمد بن اسماعیل بن بزیع، حسین بن سعید اہوازی ، احمد بن محمد بن خالد برقی۔ ان تمام اصحاب کا شمار علمی اور فقہی میدان میں ہوتا تھا اور ان میں سے بعض کی متعدد تالیفات بھی تھیں ۔
اس کے علاوہ امام محمد تقی (علیہ السلام) کی احادیث کے راویوں کا شمار صرف صرف شیعہ محدثین میں نہیں ہوتا بلکہ اہل سنت کے محدثین اور علماء نے بھی اسلام کے حقایق اور تعلیمات کو آپ سے نقل کئے ہیں ، مثال کے طور پر خطیب بغدادی نے کچھ احادیث کو اپنے اسناد کے ساتھ امام جواد (علیہ السلام) سے نقل کی ہیں (٣) ۔
اسی طرح حافظ عبدالعزیز بن اخضر جنابذی نے کتاب معالم العترة الطاہرة (٤) میں اور دوسرے مولفین جیسے ابوبکر احمد بن ثابت، ابواسحاق ثعلبی اور محمد بن مندہ بن مہربذ نے اپنی تاریخ ا ور تفسیر کی کتابوں میں آپ سے روایتیں نقل کی ہیں (٥) (٦) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.