مختصر جواب:
مفصل جواب:
کربلا کے انقلابی اور جانگداز واقعہ کے بعد بہت سے شعراء نے اس کو اپنے اشعار میں بیان کیا ، لیکن ہر شاعر نے اپنے نقطہ نظر سے اس واقعہ کو بیان کیا ، بہت سے شعراء نے اس واقعہ کی مظلومیت کے پہلوئوں کو اُجاگر کیا ، بعض شعراء نے اس کے عرفانی پہلوئوں پر روشنی ڈالی اور بعض شعراء نے اس کی شجاعت و دلاوری اور ظلم ستیزی کو بیان کیا ۔ اس حادثہ کے یہ پہلو اور دوسرے پہلوشعر و ہنر میں عاشورا کے اثر و رسوخ کو بیان کرتے ہیں ۔
اصولی طور پر شعراء نظم اور ہنر کی زبان میں جو تصویر کھینچتے ہیں وہ بہت ہی عمیق اور دلنشین ہوتی ہے اور اگر یہ تصویر اعتقاداور ایمان کے ساتھ معاشرہ کی پریشانیوں کو بیان کررہی ہو تو پھر یہ اشعار بہت دنوں تک باقی رہتے ہیں ، اس لحاظ سے واقعہ کربلا کے باقی رہنے کا بہترین راز شعر و ادب اور ہنر کی زبان بھی ہے ۔
عرب اور عجم کے بہت سے شعراء نے اس واقعہ کو نظم کیا ہے ، لیکن ان میں سے بعض آثار کی طرف بہت زیادہ توجہ کی گئی ہے یہاں تک کہ کبھی کبھی ان میں سے بعض اشعار لوگوں کی زبانوں پر جاری رہتے تھے اور بعض اشعار کو جنگ اور مظلوموں کو جوش میں لانے کے لئے استعمال کرتے تھے ، بعض اوقات اس طرح کے اشعار اور نعروں کا اثر بہت سی تقریروں سے زیادہ ہوتا ہے ،مظلوموں کو اپنا حق واپس لینے میں جرائت اور جسارت عطا کرتے ہیں اور ظالموں کو وحشت و اضطراب میں ڈال دیتے ہیں ۔
اسی سلسلہ میں بہت سے شعراء اہل بیت (علیہم السلام) نے کوشش کی تاکہ عاشورا کی دلیر روح کو اپنے اشعار میں محفوظ کرسکیں ۔
شجاع اور بہادر شاعر دعبل نے اپنے مشہور قصیدہ کو اس بیت سے آغاز کیا :
مدارس آیات خلت من تلاوة
و منزل وحی مقفر العرصات
اے آل محمد (علیہم السلام) تمہارے گھر خدا کی آیات کے مدارس تھے جو ہر چیز سے مجبور ہوگئے ہیں (١) ۔
ہمارے زمانہ کے شعراء نے بھی اس کو نیا رنگ دیا اور اس طرح کے اشعار نظم کئے :
ان کان دین محمد لم یستقم
الا بقتلی یا سیوف خذینی
اگر دین محمد میری شہادت (اور دشمنوں کی رسوائی) کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تواے تلواروں آئو اور مجھے اپنی لپیٹ میں لے لو (٢) ۔
ایک دوسرے شاعر نے سید الشہداء کی زبان حال میں کہا ہے :
قف دون رایک فی الحیاة مجاھدا
ان الحیاة عقیدة و جھاد
زندگی میں اپنے عقیدہ کو محفوظ کرنے کے لئے جہاد کرنا چاہئے کیونکہ حقیقی زندگی ، عقیدہ او رجہاد کے علاوہ کچھ نہیں ہے (البتہ اس کے مخاطب مسلمان اور اہل بیت (علیہم السلام) کے مکتب کے ماننے والے ہیں ) ۔
آج اسلام کے دشمن اس پاک و پاکیزہ آئین کو نابود کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں کہ عزائے حسینی کی رسومات کو بہترین مضامین سے خالی کردیں اور شجاعت و دلاوری کی روح کو اس سے نکال لیں اور جو درس اس عظیم واقعہ کی بہادری میں چھپے ہوئے ہیں ان کو بھلا دیں ۔
باخبر خطیبوں ، ذاکروں آور شجاع و بیدار لکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ تاریخ کے اس عظیم واقعہ کے مضامین کو محفوظ کرنے کی کوشش کریں اور دنیا کی مظلوم قوموں اور مظلوم مسلمانوں کی نجات کے لئے اس سے بہترین درس حاصل کریں (٣) ۔
اصولی طور پر شعراء نظم اور ہنر کی زبان میں جو تصویر کھینچتے ہیں وہ بہت ہی عمیق اور دلنشین ہوتی ہے اور اگر یہ تصویر اعتقاداور ایمان کے ساتھ معاشرہ کی پریشانیوں کو بیان کررہی ہو تو پھر یہ اشعار بہت دنوں تک باقی رہتے ہیں ، اس لحاظ سے واقعہ کربلا کے باقی رہنے کا بہترین راز شعر و ادب اور ہنر کی زبان بھی ہے ۔
عرب اور عجم کے بہت سے شعراء نے اس واقعہ کو نظم کیا ہے ، لیکن ان میں سے بعض آثار کی طرف بہت زیادہ توجہ کی گئی ہے یہاں تک کہ کبھی کبھی ان میں سے بعض اشعار لوگوں کی زبانوں پر جاری رہتے تھے اور بعض اشعار کو جنگ اور مظلوموں کو جوش میں لانے کے لئے استعمال کرتے تھے ، بعض اوقات اس طرح کے اشعار اور نعروں کا اثر بہت سی تقریروں سے زیادہ ہوتا ہے ،مظلوموں کو اپنا حق واپس لینے میں جرائت اور جسارت عطا کرتے ہیں اور ظالموں کو وحشت و اضطراب میں ڈال دیتے ہیں ۔
اسی سلسلہ میں بہت سے شعراء اہل بیت (علیہم السلام) نے کوشش کی تاکہ عاشورا کی دلیر روح کو اپنے اشعار میں محفوظ کرسکیں ۔
شجاع اور بہادر شاعر دعبل نے اپنے مشہور قصیدہ کو اس بیت سے آغاز کیا :
مدارس آیات خلت من تلاوة
و منزل وحی مقفر العرصات
اے آل محمد (علیہم السلام) تمہارے گھر خدا کی آیات کے مدارس تھے جو ہر چیز سے مجبور ہوگئے ہیں (١) ۔
ہمارے زمانہ کے شعراء نے بھی اس کو نیا رنگ دیا اور اس طرح کے اشعار نظم کئے :
ان کان دین محمد لم یستقم
الا بقتلی یا سیوف خذینی
اگر دین محمد میری شہادت (اور دشمنوں کی رسوائی) کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تواے تلواروں آئو اور مجھے اپنی لپیٹ میں لے لو (٢) ۔
ایک دوسرے شاعر نے سید الشہداء کی زبان حال میں کہا ہے :
قف دون رایک فی الحیاة مجاھدا
ان الحیاة عقیدة و جھاد
زندگی میں اپنے عقیدہ کو محفوظ کرنے کے لئے جہاد کرنا چاہئے کیونکہ حقیقی زندگی ، عقیدہ او رجہاد کے علاوہ کچھ نہیں ہے (البتہ اس کے مخاطب مسلمان اور اہل بیت (علیہم السلام) کے مکتب کے ماننے والے ہیں ) ۔
آج اسلام کے دشمن اس پاک و پاکیزہ آئین کو نابود کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں کہ عزائے حسینی کی رسومات کو بہترین مضامین سے خالی کردیں اور شجاعت و دلاوری کی روح کو اس سے نکال لیں اور جو درس اس عظیم واقعہ کی بہادری میں چھپے ہوئے ہیں ان کو بھلا دیں ۔
باخبر خطیبوں ، ذاکروں آور شجاع و بیدار لکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ تاریخ کے اس عظیم واقعہ کے مضامین کو محفوظ کرنے کی کوشش کریں اور دنیا کی مظلوم قوموں اور مظلوم مسلمانوں کی نجات کے لئے اس سے بہترین درس حاصل کریں (٣) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.