مختصر جواب:
مفصل جواب:
بعض علماء نے گریہ کے جسمانی اور نفسیاتی مثبت آثار اور انسان کی روح و نفس کی صفائی میں اس کی تاثیرکو مدنظر رکھتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ ائمہ علیہم السلام نے گریہ کے ذاتی حسن کی وجہ سے مجالس عزاء کو برپا کرنے کی تاکید کی ہے ، کیونکہ گریہ کے ذریعہ ""تاثرات کا اظہار "" انسان کی عطوفت کے متعادل اور اس کی فطری نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ جو لوگ کم گریہ کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ اپنے غموں اور افسردگی کو کم نہیں کرپاتے اور اپنے داخلی گراہوں کو کھول نہیں پاتے وہ متعادل نفسیات اور اچھی روح او رجسم سے برخوردار نہیں ہیں ، اسی وجہ سے ماہرین نفسیات کا عقیدہ ہے : عورتوں کی مشکلات مردوں سے کم ہوتی ہیں کیونکہ وہ بہت جلد اپنی روحی مشکلات کو گریہ کے ذریعہ باہر نکال دیتی ہیں اور بہت کم اس کو اپنے اندر چھپاتی ہیں اور یہ امر سلامتی کے رازوں میں سے ایک راز ہے (١) ۔ نیز ان کا عقیدہ ہے کہ انسان کے اندر جمع ہوئی مشکلات کے فشار کو گریہ کم کردیتا ہے اور انسان کے داخلی بہت سے رنج و آلام کاعلاج ہے ۔ حقیقت میں آنکھوں کے آنسوں اطمینان کے ان لمحات کی طرح ہیں جو مشکل حالات میں انسان کی روح کو معتدل رکھتے ہیں ۔
ان کے عقیدے کے مطابق گریہ کے اسی ذاتی حسن کی وجہ سے حضرت یعقوب نے برسوں برس اپنے بیٹے کی دوری میںآنکھوں سے اشک بہائے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے بیٹے ابراہیم (١) اور اپنے جلیل القدر صحابی عثمان بن مظعون کی موت پر بہت گریہ فرمایا (٢) ۔ اسی طرح اپنے بہت سے اصحاب اور دوستوں کی موت اور اپنے چچا حمزہ کی شہادت پر گریہ فرمایا اور مدینہ کی عورتوں کو اپنے چچا کے جنازہ پر رونے کے لئے دعوت دی (٣) اور یہی وجہ تھی کہ حضرت زہرا (علیہا السلام) اپنے والد گرامی رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وفات پر شب و روز گریہ فرماتی تھیں (٤) اور حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) برسوں برس اپنے والد بزرگوار امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت پر روتے رہے (٥) ۔
انسان کی روح کی صفائی اور اس کو کمال تک پہنچانے میں اگر چہ گریہ کے مثبت آثار اور اس کے طبی فوائد سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ایسی تحلیل کبھی بھی ائمہ علیہم السلام) کی اس قدر تاکید اور سفارش کا راز نہیں ہوسکتی ۔ یہ تحلیل ایک بہت بڑی غلطی ہے ، جو بھی اسلامی روایات کو اس سلسلہ میں مطالعہ کرتا ہے وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کام کا ایک بہت اہم ہدف موجود ہے (٦) ۔
ان کے عقیدے کے مطابق گریہ کے اسی ذاتی حسن کی وجہ سے حضرت یعقوب نے برسوں برس اپنے بیٹے کی دوری میںآنکھوں سے اشک بہائے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے بیٹے ابراہیم (١) اور اپنے جلیل القدر صحابی عثمان بن مظعون کی موت پر بہت گریہ فرمایا (٢) ۔ اسی طرح اپنے بہت سے اصحاب اور دوستوں کی موت اور اپنے چچا حمزہ کی شہادت پر گریہ فرمایا اور مدینہ کی عورتوں کو اپنے چچا کے جنازہ پر رونے کے لئے دعوت دی (٣) اور یہی وجہ تھی کہ حضرت زہرا (علیہا السلام) اپنے والد گرامی رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وفات پر شب و روز گریہ فرماتی تھیں (٤) اور حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) برسوں برس اپنے والد بزرگوار امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت پر روتے رہے (٥) ۔
انسان کی روح کی صفائی اور اس کو کمال تک پہنچانے میں اگر چہ گریہ کے مثبت آثار اور اس کے طبی فوائد سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ایسی تحلیل کبھی بھی ائمہ علیہم السلام) کی اس قدر تاکید اور سفارش کا راز نہیں ہوسکتی ۔ یہ تحلیل ایک بہت بڑی غلطی ہے ، جو بھی اسلامی روایات کو اس سلسلہ میں مطالعہ کرتا ہے وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کام کا ایک بہت اہم ہدف موجود ہے (٦) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.