قرآن کریم میں غورو فکر کرنے والوں کے لئے سب سے پہلا خطرہ یہ ہے کہ وہ کہیں ہمارے لئے قرآن کریم کافی ہے اور معصومین علیہم السلام کی روایات کو استعمال نہ کریں اور یہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی متواتر حدیث ثقلین کے برخلاف ہے ۔
بیداری اسلامی اپنے حقیقی معنی میں واقع ہونی چاہئے، مصر اور دوسرے ملکوں کی طرح داخلی جنگ اور اختلافات میں تبدیل نہیں ہونی چاہئے ۔
انسان کے کاموں میں سے ایک کام جو ہمیشہ باقی رہتا ہے اوراس کے مرنے کے بعد بھی اس کی فایل بند نہیں ہوتی اورہمیشہ اس کی برکتیں عالم برزخ اور عالم قیامت میں اس کو ملتی ہیں وہ وقف کا مسئلہ ہے جو معاشرہ کی ضرورت اور نیاز کے تحت انجام دیا جاتا ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) کی شہادت کے ایام کا احترام کرنا سب پر لازم ہے ،اس بناء پر دونوں مہینوں یعنی ماہ جمادی الاول اور ماہ جمادی الثانی کی مناسبتوں پر عزاداری قائم کی جائے ۔
واقعا یہ بات مضحکہ خیز ہےکہ امریکی اس قدر انسانی حقوق کی پایمالی کےباوجود انسانی حقوق کےدفاع کا دم بھرتے ہیں، یا غاصب اسرائیل کہتا ہے کہ اگر ہم نے مصلحت دیکھی تو شام اور ایران کے تمام ایٹمی مراکز پر حملہ کریں گے، کیا سرکشی اور غیرقانونیت اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ انسانی حقوق کے اس قدرعالمی مراکزاور کمیٹیاں کس لئے ہیں؟ کیا یہ حیوانیت اور بربریت نہیں ہے؟
ہمیشہ بحرین کے ناگوار حالات کی خبریں ہمیں ملتی رہتی ہیں ، بحرین کے مسلمان کیا چاہتے ہیں ؟ وہ لوگ کہتے ہیں : جس ڈموکرسی اور لوگوں کی حکومت کو تم سب جگہ پر قائم کرنا چاہتے ہو وہی ڈموکراسی اس جگہ پر بھی برقرار ہونی چاہئے ، لیکن پُر امن احتجاج کا جواب بحرین کی حکومت سختی اور تشدد سے دے رہی ہے ۔
امریکہ کے وزیر خارجہ کی ادبیات غلط، تحقیرآمیز ، تہدید اور نفرت سے بھری ہوئی ہے اور سب کو وہ بہت بُرا لگتا ہے ، جان کیری کہتا ہے کہ جب سے جنیوا کے توافق پر دستخط ہوئے ہیں اس وقت سے اسرائیل کی امنیت زیادہ ہوگئی ہے اور دنیا کو بہت زیادہ امنیت مل گئی ہے ۔
ایسے کام انجام نہ دئیے جائیں جن سے مسلمان ایک دوسرے پراعتماد نہ کریں ، شیعہ دوسرے مذاہب کے مقدسات کی توہین نہ کریں کیونکہ یہ داخلی جنگ کا سبب بن جائے گی ، مولا علی (علیہ السلام) کے متعلق مطالب بیان کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن دوسروں کی توہین نہ کی جائے ۔
اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل اور ان جیسے دوسرے مراکز دنیا میں صلح و امنیت اور انسانی حقوق کے دفاع میں تاسیس ہوئے تهے مگر افسوس که آج یہ خود ظلم اورنا انصافی کا وسیلہ بن گئے ہیں ۔
امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی ایک روایت کی بنیاد پر جو لوگ علم حاصل کرنے کے لئے قدم اٹھاتے ہیں ،خداوندعالم ان کے لئے بہشت کا راستہ کھول دیتا ہے اور ملائکہ بھی اپنے بال و پر کو ان کے لئے زمین پر بچھاتے ہیں اور دنیا کی تمام موجودات ان کے لئے استفار کرتی ہیں ۔
مغربیوں خصوصا امریکیوں کی تعبیریں اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں بہت بُری، تیزاور نفرت آمیز ہیں ، یہ لوگ اگر چاہتے ہیں کہ ایرانیوں کے ساتھ مل کر کام کریں تو ان کو اپنی ادبیات کو تبدیل کرنا پڑے گا ۔
فیس بُک ایسے دور و دراز شہر کی طرح ہے جس میں تمام علماء ،دانشوروں ، چورروں ، شکار کرنے والوں اور مختلف قسم کے فساد میں آلودہ لوگوں کی دُکانیں ہیں اور ان دُکانوں میں کبھی ضرورت زندگی کے وسائل ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر و بیشتر میں گناہ ، فساد اور اخلاقی انحراف پایا جاتا ہے جو سب کے اختیار میں ہوتا ہے ۔
مذہبی انجمنوں ، مساجد اور امام بارگاہوں میں عزاداری حسینی کے استقبال میں جو آمادگی دکھائی دے رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انشاء اللہ اس سال بھی بیدار کرنے والی اور دشمن کی کمر کو توڑنے والی یہ رسومات ہر سال سے زیادہ بہتر طریقہ سے انجام دی جائیں گی ۔
ہمیں پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ لوگ اسلام میں بہت کم ہیں اور اقلیت میں ہیں اور اکثر مسلمان ان کے خلاف ہیں اور ان کے عقل و منطق سے دور اقدامات، دینی تعلیمات سے ذرہ برابر بھی مطابقت نہیں رکھتے ۔
حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ) کی طرف سے روانہ وفد نے حوزہ علمیہ کے بعض اساتید اور فضلاء کی موجودگی میں اتوار کے روز بتاریخ ١٦ ذی قعدہ الحرام ١٤٣٤ ھ مطابق با١/٧/٩٢ کو معظم لہ کے بعثہ میں اپنی کارکردگی کا آغاز کیا ہے ۔
انشاء اللہ ہمارے ذہین اور ہوشیار حکمراں اس بات کی طرف متوجہ ہیں کہ مغربی ممالک میدان عمل میں کس طرح کے پروگرام پیش کرتے ہیں ورنہ دنیا میں سفارتی تکلفات بہت زیادہ ہیں ۔
اسلام کے دشمن اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ہم لوگ ایک روز متحد ہوجائیں گے لہذا وہ ہمارے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں،سوء ظن اور بدبینی ایجاد کرتے ہیں،اگر تمام مسلمان ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیں توہم سب پوری دنیا میں عزت و شرافت اور اطمینان کےساتھ زندگی بسر کرسکتے ہیں.
گذشتہ زمانہ میں اس کام کے لئے یوروپ کے دو تین ملک، امریکہ کے ساتھ مل جاتے تھے اور اس کا نام بین الاقوامی اتفاق رائے رکھتے تھے اور اب یوروپ کے ان ملکوں کو بھی دور دفعہ کردیا گیا ہے اور امریکہ خود دنیا کے دوسرے ملکوں کے متعلق فیصلہ کرنا چاہتا ہے ، وہ بھی جھوٹے بہانوں کو ڈھال بناتے ہوئے ۔ ہماری رائے کے مطابق اس وقت کی یہ سب سے بڑی ذلت اور رسوائی ہے ۔
صدر اسلام میں مسجد النبی (ص) بظاھر مٹی کی اور بہت سادی تھی،مگر اُسی مسجد نے دنیا کی چولیں ہلا کر رکھدیں،اما افسوس عصر حاضر میں مسجد النبی(ص) اپنی تمام وسعت و بزرگی کے ساتھ اس میں فقط ایک نماز ظاهری طور پرہوتی ہے اور اس کے خادمِین نے امریکیوں کے ہاتھوں میں اپنے ہاتھ دے رکهے ہیں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ العالی) کی طرف سے زکات فطرہ اور ماہ مبارک رمضان کے کفارے کی مقدار معین کر کے تمام دفاتر کو بھیج دی گئی ۔
ہمیں امید ہے کہ تمام لوگ ، جوان ، عورتیں اور بچے یوم قدس کو ایک الہی فریضہ سمجھتے ہوئے اس کے مظاہروں میں شرکت کریں گے اور یہ بات بھی جان لیں کہ ان کے نامہ اعمال میں یہ ایک برجستہ اور اچھے کام کے عنوان سے ثبت ہوگا اور یہ امت اسلام اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کا سبب ہوگا ۔
آج یہ مکاتب فکر ، معاشرہ کی جوان نسل کو منحرف کرنے کے درپے ہے اور یہ ایسے کام انجام دیتے ہیں جو بہت ہی شرم آور ہیں ۔
اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ یورپین اعتماد کے قابل نہیں ہیں ان کے کاموں میں کوئی حساب و کتاب نہیں ہے ، جو ان کا دل چاہتا ہے اسی کو اجراء کرتے ہیں اور دوسرے سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے ۔
آج دنیائےاسلام کی سب بڑی مشکل وھابی ہیں جو اپنی وحشی گری کےذریعہ مسلمانوں کی عزت،آبرو،حیثیت اور اسلامی بنیادوں کو کاری ضرب لگانے میں مصروف ہیں، اور وہ اسلام جو آیین رحمت و محبت ہےاسے شدت پسندی،خشونت،خونریزی اور بے رحمی کا دین معرفی کرنے میں مصروف ہیں ۔
ہمارے دشمنوں نے عراق اور افغانستان میں شکست کھانے کے بعد اپنے حربوں کو مسلمانوں کے درمیان اختلاف ایجاد کرنے اور مسلمانوں کو قتل کرنے پر مرکوز کردئیے ہیں ، ایسے حالات میں مسلمان خصوصاعلمائےاسلام کوہوشیاری سےکام لینا چاہئے