۴۔ عالم برزخ کیا ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره مؤمنون / آیه 101 - 104۳۔ ”کَلاَّ“ یہاں کس چیز کی نفی کرتا ہے؟
عالم برزخ کیا ہے؟ کہاں ہے اور دنیا وآخرت کے درمیان اس قسم کے جہاں کی کیا دلیل ہے؟ نیز کیا برزخ سب کے لئے ہے یا کچھ معیّن لوگوں کے لئے؟ اور اس عالم میں مومنین، صالحین، کفار اور گناہگار کی کیا کیفیت ہوگی؟
عالمِ برزرخ کے بارے میں اس قسم کے سوالات اور آیات وروایات میں ان پہلووٴں کی طرف اشارہ ہوا ہے ضروری ہے کہ یہ تفسیر جس قدر اجازت دیتی ہے، ہم ان سوالات کا جواب دیں ۔
”برزخ“ کا بنیادی معنیٰ ہے ایسی چیز کہ جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو، بعد ازاں ہر اس چیز کو ”برزخ“ کہا جانے لگا کہ جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو، بعد ازاں ہر اس چیز کو ”برزخ“کہا جاتا ہے ۔
اسی جہان کو عالمِ قبر اور عالمِ ارواح بھی کہا جاتا ہے، اس سلسلے میں متعدد ایسی قبرآنی آیات موجود ہیں کہ جن میں سے کچھ ظاہری طور پر اس عالمِ کی موجودگی پر دلالت کرتی ہیں اور بعض صراحتاً یہ مفہوم دیتی ہیں ۔
زیرِ بحث آیت ”وَمِنْ وَرَائِھِمْ بَرْزَخٌ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ“ (ان کے پھر بھی اٹھنے کے دن تک ان کے پیچھے برزخ حائل ہے) ۔
یہ آیت عالم برزخ کے بارے میں بالکل ظاہری مفہوم رکھتی ہے، اگرچہ بعض نے یہاں پر برزخ کے معنیٰ ”اس دنیا کی طرف واپسی میں رکاوٹ“ کہا ہے، لیکن یہ معنیٰ بہت ہی بعید نظر آتا ہے کیونکہ ”إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ“ (مبعوث ہونے اور قبروں سے اٹھنے کے دن تک) اس بات کی دلیل ہے کہ یہ برزح دنیا اور آخرت کے درمیان ہے نہ کہ انسان اور دنیا کے درمیان۔
یہ آیات صراحتاً اس قسم کے جہاں ثابت کرتی ہیں وہ ہیں کہ جو شہداء کی زندگی سے مربوط ہیں ۔
< وَلَاتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُونَ
”ہرگز یہ گمان نہ کرنا کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے ہیں وہ مردہ ہیں، وہ تو زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں رزق پاتے ہیں“۔ (آلِ عمران) ۔
یہاں تو روئے سخن پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی طرف ہے، جبکہ سورہٴ بقرہ کی آیت ۱۵۴ میں تمام مومنین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
<وَلَاتَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتٌ بَلْ اٴَحْیَاءٌ وَلَکِنْ لَاتَشْعُرُون
”الله کی راہ میں مارے جانے والوں کو مردہ نہ کہو، وہ تو زندہ ہیں، تمھیں ان کی زندگی کا شعور نہیں“۔
نہ صرف شہداء جیسے بلند مقام مومنین کے لئے عالمِ برزخ موجود ہے، بلکہ فرعون اور اس کے حواریوں جیسے سرکشوں کے لئے عالمِ برزخ کا ہونا صراحت سے سورہٴ مومن کی آیت ۴۶ میں آیا ہے:
<النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ اٴَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اٴَشَدَّ الْعَذَابِ
”)فرعون اور اس کے ساتھی) ہر صبح وشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جب قیامت کا دن ہوگا تو حکم دیا جائے گا کہ آلِ فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو“ ۔
البتہ اس سلسلے میں مفسرین نے اور بھی کئی ایک آیات ذکر کی ہیں کہ جو اتنی صراحت سے عالمِ برزخ کو ثابت نہیں کرتیں، جتنی کہ مذکورہ بالا ۔ اس ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ صرف زیرِ بحث آیت ایسی ہے کہ جس میں عالمِ برزخ کا ذکر عمومی حوالے سے ہے، دیگر آیات میں خصوصی حوالے سے ذکر ہے، مثلاً شہداء کے بارے میں یا آل فرعون کے بارے میں، لیکن یہ واضح ہے کہ مسئلہ صرف آل فرعون سے متعلق نہیں، کیونکہ ان جیسے بہت سے لوگ دنیا میں ہیں اور اسی طرح معاملہ صرف شہداء سے مخصوص نہیں کیونکہ قرآن مجید میں اور بھی لوگوں کو شہداء کے ہم پلّہ شمار کیا گیا ہے، مثلاً سورہٴ نساء کی آیت۶۹ میں انبیاء وصدیقین، شہدا اور صالحین کو ایک صف میں شمار کیا گیا ہے ۔
<فَاٴُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّھَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ
عالمِ برزخ سب کے لئے ہے یا نہیں، اس سلسلے میں ہم انشاء الله اس بحث کے آخر یں گفتگو کریں گے رہا روایات کا معاملہ تو اس بارے میں شیعہ اور سنی کتب میں بہت زیادہ روایات موجود ہیں، روایات میں اس دور کے لئے تعبیرات ہیں، کہیں اے عالمِ برزخ کہا گیا ہے، کہیں عالمِ قبر اور کہیں عالمِ ارواح۔ اس ضمن میں روایات میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے، ہم ذیل میں چند ایک روایات پیش کرتے ہیں:
۱۔ ایک مشہور حدیث نہج الابلاغہ کے کلمات قصار میں موجود ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام جنگ صفین سے لوٹے تھے، واپسی پر کوفہ کے قبرستان سے گزرے، یہ قبرستان شہر کے دروازے سے باہر تھا، آپ علیہ السلام نے قبروں کی طرف رخ کیا اور فرمایا:
”یا اٴھل الدیار الموحشة والمحال المقفرة والقبور المظلمة! یااٴھل التربة! یااٴھل الغربة! یااٴھل الوحدة! یااٴھل الوحشة! اٴنتم لنا فرط سابق ونحن لکم تبع لاحق، امّا الدّور فقد سکنت، وامّا الازواج فقد نکحت و امّا الاموال فقد قسمت؛ ھٰذا خبر ما عندنا فما خبر ما عندکم؟ ثمّ التفت الیٰ اصحابہ فقال: امّا لو اذن لھم الکلام لاخبروحکم ان خیر الزاد التقویٰ“.
”اے وحشت کے گھروں، خالی مکانوں اور تاریک قبروں میں رہنے والو! خاک نشینو! اے مسافرو! اے تنہائی میں رہنے والو! اے اہل وحشت! تم اس راستے پر ہم سے پہلے چلے گئے ہو ۔ ہم بھی تم سے آملیں گے اگر تم دنیا کی خبر پوچھتے ہو تو وہ یہ ہے کہ تمھارے گھروں دوسرے ابسے ہیں، تمھاری بیویاں اوروں سے بیاہی گئی ہیں اور تمھارے مال تقسیم ہوگئے ہیں، یہ تو ہمارے ہاں کی خبر ہے ۔ اب کہو تمھارے ہاں کی کیا خبر ہے؟
پھر آپعلیہ السلام اپنے اصحاب کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا: اگر انھیں بات کرنے کی اجازت ملے تو یقیناً تمھیں بتائیں کہ اس سفر کے لئے بہترین زادہ راہ تقویٰ ہے (1) ۔
واضح ہے ان سب باتوں کو مجاز اور کنائے پر محمول نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہ سب اس حقیقت کی خبر دیتی ہیں کہ موت کے بعد ایک طرح کہ برزخی زندگی ہے اور اس دور میں انسان سمجھتا ہے اور ادراک رکھتا ہے اور اگر اسے بات کرنے اجازت دی جائے تو وہ بات بھی کرے ۔
۲۔ ایک اور حدیث اصبغ بن نباتہ نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے، اصبغ کہتے ہیں: ایک روز حضرت علی علیہ السلام شہر کوفہ سے باہر نکلے اور ”عزی“ (نجف) کے مقام کے قریب آئے ہم آپ تک پہنچے تو دیکھا کہ آپ زمین پر لیٹے ہوئے ہیں، قنبر نے کہا: یا امیرالمومنین علیہ السلام! کیا آپعلیہ السلام اجازت نہیں دیتے کہ میں اپنی عبا آپعلیہ السلام کے پاوٴں کے نیچے بچھادوں؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: نہیں ایسی جگہ ہے کہ جس میں مومنین کی مٹی موجود ہے اور تیرا کام ان کے لئے باعثِ زحمت ہے ۔
میں نے عر ض کیا: یا امیرالمومنین علیہ السلام! میں نے مومن کی مٹی والی بات تو سمجھ لی ہے کہ وہ کیا ہے لیکن ان کے لئے باعثِ زحمت ہونے کا کیا معنی ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا:
یابن نباتہ لو کشف لکم لراٴیتم ارواح الموٴمنین فی ھٰذہ الظھر حلقاً، یتزاورون ویتحدثون، ان فی ھذا الظھر روح کل موٴمن وبوادی برھوت نسمة کل کافر.
اے ابن نباتہ! اگر تمھاری آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹادیئے جائیں تو تم لوگ مومنین کی روحوں کو دیکھو کہ حلقے بنائے بیٹھی ہیں، ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور ایک دوسرے سے باتیں کرتی ہیں، یہ مومنین کی جگہ ہے اور وادیٴ برہوت میں کافروں کی روحیں ہیں (2) ۔
۳۔ایک اور حدیث میں امام علی بن الحسین علیہماالسلام سے منقول ہے کہ آپعلیہ السلام نے فرمایا:
انّ القبر امّا روضة من ریاض الجنة، اٴو حفرة من حفر النار.
قبر جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، یا جہنم کے گڑھوں میں سے سے ایک گڑھا ہے(3) ۔
۴۔ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے آپعلیہ السلام نے فرمایا:
البرزخ القبر، ھو الثواب والعقاب بین الدنیا والآخرة.... واللهِ مانخاف علیکم الّا البرزخ.
برزخ وہی عالمِ قبر ہے کہ جو دنیا وآخرت کے درمیان ثواب اور عذاب کا دور ہے، خدا کی قسم ہمیں تمھارے بارے میں صرف عالمِ برزخ کا خوف ہے (4)۔
۵۔ ایک اور حدیث کہ جو کتاب کافی میں منقول ہے، اس میں اس جملے کے بعد ہے کہ راوی نے امام علیہ السلام سے پوچھا: ”وماالبرزخ؛ برزخ کیا ہے“ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
القبر منذ حین موتہ الیٰ یوم القیامة.
یہ وہی عالمِ قبر ہے، وقت موت سے لے کر قیامت تک(5) ۔
۶۔ ایک اور حدیث امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے: ایک شخص نے آپعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: بعض لوگ کہتے ہیں کہ بعد از موت مومنین کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے سینے میں ہوتی ہیں اور یہ پرندے عرش الٰہی کے گرد محوِ پرواز رہتے ہیں ۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا:
لا، الموٴمن اٴکرم علی الله من اٴن یجعل روحہ فی حوصلة طیرولٰکن فی ابدان کابدانھم.
نہیں ایسا نہیںہے، مومن بارگاہِ الٰہی میں ا س سے زیادہ باوقار ہے کہ اس کی روح کسی پرندے کے سینے میں بند کردی جائے، مومنین کی روحیں ان کے بدنوں میں ہوتی ہیں اور وہ ان کے انہی بدنوں کی طرح ہیں (6) ۔
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ برزخی بدن ایک خاص قسم ہے کہ جو کئی پہلووٴں سے اس مادی جسم کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے، لیکن ایک قسم کے تحرد برزخی کاحامل ہے ۔
۷۔ کافی میں ایک اور حدیث امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپعلیہ السلام سے مومنین کی ارواح کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
فی حجرات فی الجنة یاٴکلون من طعامھا ویشربون من شرابھا ویقولون ربّنا اٴقم لنا الساعة وانجز لنا ماوعدتن.
وہ جنّت کے جھروں میں رہتے ہیں، بہشت کے کھانے کھاتے ہیں اور اسی کے مشروبات پیتے ہیں اور کہتے ہیں پروردگارا! ہمارے لئے جلدی قیامت قائم فرما اور جو وعدے ہم سے کئے ہیں انھیں پورا فرما(7) ۔
۸۔ اسی کتاب میں امام بزرگوار سے ایک اور حدیث بھی منقول ہے ۔ فرمایا: جس وقت کوئی مومن دنیا سے جاتا ہے تو مومنین کی روحیں اسے گھیر لیتی ہیں اور دنیا میں زندہ یا مرجانے والوں کے بارے میں پوچھتی ہیں، اگر وہ کہے کہ فلاں شخص دنیا سے چلا گیا ہے اور وہ انھیں اپنے پاس موجود نہ پائیں تو کہتی ہیں کہ یقیناً دوزخ وہ سقوط کرگیا ہے (یعنی جہنم میں جا پہنچا ہے)(8) ۔
واضح ہے کہ ان روایات میں جنت ودوزخ سے مراد عالمِ برزخ کی جنّت ودوزخ نہ کہ عالمِ قیامت کی کیونکہ ان دونوں میں بہت فرق ہے ۔
خلاصہ یہ کہ اس سلسلے میں زیادہ ہیں، ان روایات کو مختلف ابواب میں جمع کیا گیا ہے ان میں سے بعض ابواب کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ بہت سی روایات ہیں کہ جن میں فشار قبر اور عذاب قبر کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔
۲۔ ایسی روایات ہیں کہ جو ارواح کے اپنے گھر والوں سے ملنے اور ان کی حالت دیکھنے سے متعلق گفتگو کرتی ہیں ۔
۳۔ وہ روایات بھی ہیں کہ جن میں واقعہ معراج کے ضمن میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی انبیاءعلیہ السلام کی روحوں سے ملاقات کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔
۴۔ ایسی روایات بھی ہیں کہ جن میں بتایا گیا ہے کہ انسان اس جہان میں جو اچھے برے کام کرتا ہے، موت کے بعد ان کا نتیجہ اس تک پہنچتا ہے ۔
اسی قسم کی اور بھی بہت سی روایات ہیں(9) ۔
برزخ اور عالمِ ارواح سے ارتباط
اگرچہ ایسے بہت سے لوگ ہیں کہ جو عالمِ ارواح سے ارتباط کا غلط دعویٰ کرتے ہیں، یا ایسے ہی تصورات میں گرفتار ہیں، لیکن تحقیقات کے مطابق یہ امر درجہٴ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ عالمِ ارواح سے ارتباط ممکن ہے اور بعض آگاہ اور اہل علم افراد نے واقعاً ارواح سے رابطہ پیدا کرکے کچھ حقائق معلوم کئے ہیں ۔
یہ امر بذات خود عالمِ برزخ کی حقیقت اور اثبات کے لئے ایک واضح دلیل ہے اور نشاندہی کرتا ہے کہ عالمِ دنیا اور جسم کی موت کے بعد اور قیام آخرت سے پہلے ایک اور عالم وجود رکھتا ہے (10) ۔
اسی طرح وہ عقلی دلائل کہ جو فنائے جسم کے بعد بقائے روح اور تجرد روح کے بارے میں عالمِ برزخ کے اثبات کے لئے ایک اور برہان ہیں (غور کیجئے گا) ۔

عالمِ برزخ کا ایک خاکہ

اگر تفصیلات سے قطع نظر کرلیں تو علمائے اسلام کے درمیان عالمِ برزخ میں عذاب ونعمت کے مسئلے پر اتفاق نظر آتا ہے، چند ایک افراد کہ جن کی کوئی اہمیت نہیں ان کے علاوہ تمام شیعہ سنی علماء اس پر متفق ہیں ، اس اتفاق کی دلیل بھی واضح ہے کیونکہ عالمِ برزخ اور اس میں نعمت وعذاب کے موجود ہونے کے بارے میں قرآن مجید کی آیات میں صراحت موجود ہے ۔
شہداء کے بارے میں قرآن بالصراحت کہتا ہے:
”یہ خیال ہرگز نہ کرو کہ الله کی راہ میں جان دینے والے مردہ ہیں، وہ تو زندہ ہیں، اپنے رب کے ہاں سے رزق پاتے ہیں اور جو کچھ الله نے انھیں دیا ہے اس سے خوش ہیں اور اپنے پسماندگان کو بشارت دیتے ہیں کہ ہمیں یہاں کوئی غم نہیں“(آل عمران/۱۶۹(
”نہ صرف یہ نیک انسان نعمتوں سے مالا مال ہیں بلکہ بد ترین سرکش اور مجرم بھی عذاب میں مبتلا ہیں، جیسا کہ ہم بعد از موت قبلِ قیامت آلِ فرعون کے معذب ہونے کے بارے میں اشارہ کرچکے ہیں“(مومن/۴۶(
اور اس سلسلے میں روایات بھی حدّ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں، لہٰذا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ عالمِ برزخ ہے یا نہیں، اہم معاملہ یہ ہہے کہ ہم معلوم کریں کہ حیاتِ برزخ کس قسم کی ہے، اس سلسلے میں روایات میں برزخ کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں، ان میں زیادہ واضح یہ ہے :
”اس زندگی کے ختم ہوجانے کے بعد انسانی روح ایک لطیف جسم میں چلی جاتی ہے، یہ جسم اس کثیف مادے کے بہت سے عوارضات سے محفوظ ہے، لیکن چونکہ ہر لحاظ سے اسی دنیاوی جسم سے مشابہت رکھتا ہے، اس لئے اسے ”قالبِ مثالی“ یا ”جسم مثالی“ کہتے ہیں، یہ جسم نہ تو پوری طرح مجرد ہے اور نہ ہی پوری طرح مادی بلکہ ایک قسم کے ”تجردی برزخی“ کا حامل ہے ۔
بعض محققین نے اسے عالمِ خواب میں روح کی کیفیت سے تشبیہ دی ہے اور کہا ہے کہ ہوسکتا ہے اس حالت میں نعمتیں پاکر سچ مچ اسے لذّت محسوس ہو یا ہولناک مناظر خواب دیکھے تو چیختا ہے، بیچ وتاب کھاتا ہے اور اس کا بدن پسینے سے شرابور ہوجاتا ہے ۔
یہاں تک کہ بعض کا نظریہ ہے کہ عالمِ خواب میں واقعاً روح قالبِ مثالی کے ساتھ حرکت کرتی ہے، بعض کا نظریہ تو اس سے بھی بالاتر ہے اوروہ یہ کہ قوی ارواح حالتِ بیداری میں بھی تجردی وبرزخی حاصل کرسکتی ہیں، یعنی جسم مادی سے جُدا ہوکر اپنی مرضی سے یا مقناطیسی خوابوں کے ذریعے اسی قالب مثالی میں دنیا کی سیر کرسکتی ہیں، اور مسائل سے آگاہ ہوسکتی ہیں (11)۔
بعض نے تو یہ بھی تصریح کی ہے کہ قالبِ مثالی ہر انسان کے باطن میں موجود ہے، ابتہ موت کے وقت اور حیاتِ برزخ کے آغاز میں اس سے جدا ہونا ممکن ہے ۔
اب اگر ہم قالبِ مثالی کے لئے یہ تمام باتیں قبول نہ بھی کریں، تب بھی اصل مسئلے سے انکار نہیں جاسکتا، کیونکہ بہت سی روایات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور عقلی اعتبار سے بھی اس میں کوئی مانع نہیں ہے ۔
بعض کہتے ہیں کہ جسمِ مثالی کے اعتقاد کا لازمی نتیجہ، تناسخ پر اعتقاد ہے کیونکہ تناسخ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ایک ہی روح مختلف جسموں میں منتقل ہوجائے، لیکن جو کچھ ہم بالا سطور میں جسمِ مثالی کے بارے میں کہہ چکے ہیں اس سے اس اعتراض کا جواب واضح ہوجاتا ہے، اس سلسلے میں شیخ بہائی مرحوم نے بہت واضح جواب دیا ہے، وہ کہتے ہیں: ”وہ تناسخ کہ جس کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، یہ ہے کہ اس بدن سے نکل کر روح اسی دنیا میں کسی دوسرے بدن میں منتقل ہوجائے جبکہ عالمِ ارواح میں قیامت تک کے لئے جسمِ مثالی سے روح کا تعلق اس سے بالکل مختلف چیز ہے، جسمِ مثالی سے روح پھر حکم خدا سے پہلے والے جسم میں لوٹ آئے گی، اس کا نظریہٴ تناسخ سے کوئی تعلق نہیںن ہم تناسخ کا شدّت سے اس لئے انکار کرتے ہیں اور اس کے معتقد کو کافر سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ ارواح کے ازلی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ وہ ہمیشہ ایک بدن سے دوسرے بدن کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہیں اور وہ لوگ دوسرے جہان میں معادِ جسمانی کے بالکل منکر ہیں (12) ۔

جیسا کہ بعض نے کہا ہے کہ قالبِ مثالی اسی بدن مادی کے باطن میں ہے، اگر ایسا ہی ہے تو پھر مسئلہ تناسخ کا جواب اور بھی واضح ہوجاتا ہے، کیونکہ اس لحاظ سے روح اپنے قالب سے دوسرے قالب کی طرف منتقل نہیں ہوتی بلکہ اپنے ایک قالب کو چھوڑدیتی ہے اور اپنے دوسرے قالب کے ساتھ برزخی جاری وساری رکھتی ہے ۔
ایک سوال یہاں باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید کی بعض آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے لئے عالمِ برزخ نہیں ہے جیسا کہ سورہٴ روم کی آیت ۵۵ اور ۵۶ میں ہے کہ کچھ مُجرمین قیامت برپا ہونے کے بعد قسم کھاکر کہیں گے کہ ہم گھڑی بھر سے زیادہ عالمِ برزخ میں نہیں رہے لیکن آگاہ مومنین انھیں فوراً کہیں گے کہ تم بحکم خدا روزِ قیامت تک ایک طویل مدّت کے لئے ٹھہرے رہے ہو اور اب یوم قیامت آگیا ہے ۔
متعدد روایات میں اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ لوگ تین قسم کے ہیں:
۱۔ خالص مومن
۲۔ خالص کافر
۳۔ درمیانے اور کمزور عقیدوں کے لوگ۔
ان روایات کے مطابق عالمِ برزخ پہلے اوردوسرے گروہ کے لئے مخصوص ہے جبکہ تیسرا گروخہ برزخ کا زمانہ ایک طرح کی بے خبری کی کیفیت میں طے کرے گا، (ان روایات سے زیادہ آگاہی کے لئے بحارالانورا جلد ۶ میں احوالِ برزخ وقبر کی بحث کی طرف رجوع کریں(.
1۔ نہج البلاغہن کلمات قصار، نمبر۱۳۰.
2 ۔ بحارالانوار، ج۶، ص۲۴۳.
3۔ تفسیر نورالثقلین، ج۲، ص۵۵۳.
4۔ تفسیر نورالثقلین، ج۲، ص۵۵۳.
5۔ تفسیر نورالثقلین، ج۲، ص۵۵۳.
6۔ بحارالانوار، ج۶، ص۲۶۸، بحوالہ کافی.
7 ۔ بحارالانوار، ج۶، ص۲۶۹.
8۔ بحارالانوار، ج۶، ص۲۶۹.
9 ۔ مرحوم سید عبد الله شبّر نے کتاب ”تسلیة الفواد فی بیان الموت والمعاد“ میں ایسی تمام روایات کو جمع کیا ہے ۔
10۔ ارتباط ارواح کے بارے میں مزید وضاحت کے لئے کتاب ”عود ارواح وارتباط با ارواح“ اور کتاب ”جہان پس از مرگ“ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
11۔ بحارالانوار میں اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ مجلسی مرحوم تصریح کرتے ہیں: ”بہت سی روایات میں برزخی حالت کو عالمِ خواب کے مشابہ قرار دیا گیا ہے، یہاں تک کہ ممکن ہے، قوی اور بلند مرتبہ نفوس متعدد اجسامِ مثالی کے حامل ہوں، اس طریقے سے وہ روایات توجیہ وتاویل کی محتاج نہیں رہتیں کہ جن میں ہے کہ ہر شخص کی جان کنی کے وقت آئمہ اُس کے پاس آتے ہیں ۔ (بحارالانوار، ج۶، ص۲۷۱)
12۔ نہج البلاغہن کلمات قصار، نمبر۱۳۰.
سوره مؤمنون / آیه 101 - 104۳۔ ”کَلاَّ“ یہاں کس چیز کی نفی کرتا ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma