تہمت کی سزا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۱۔ آیت میں ”رمی“ کا کیا معنی ہے؟سوره نور / آیه 4 - 5

گزشتہ آیات میں زانی مرد اور عورت کے لئے سخت سزا بیان کی گئی ہے، ہوسکتا ہے خود غرض اور بے تقویٰ افراد اس سے غلط فائدہ اٹھائیں اور پاکدامن افراد پر تہمت لگانا شروع کردیں اس لئے زانیوں کے لئے شدید سزا بیان کرنے کے ساتھ ہی ہوئے استفادہ کرنے والوں اور تہمت لگانے کے لئے سخت سزا بیان کردیں تاکہ ایسے افراد کے ہاتھوں پاکدامن گھرانوں کی حیثیت اور احترام محفوظ رہے اور کوئی شخص کسی کی عزت وآبرو کوزائل کرنے کی جرئت نہ کرسکے ۔ ارشادہوتا ہے: جو افراد پاکدامن عورتوں پر منافی عفت عمل کا الزام لگاتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس دعوے کے ثبوت کے لئے چار (عادل) گواہ پیش کریں اور اگر وہ ایسا نہ کرسکیں تو ان میں سے ہر ایک کو اسّی کوڑے لگاوٴ(وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَاٴْتُوا بِاٴَرْبَعَةِ شُھَدَاءَ فَاجْلِدُوھُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَةً) ۔
یہ سخت سزا بیان کرنے کے بعد قرآن دواحکام کا اضافہ کرتا ہے ۔
اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو (وَلَاتَقْبَلُوا لَھُمْ شَھَادَةً اٴَبَدًا) ۔
اور وہ فاسق ہیں(وَاٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْفَاسِقُونَ) ۔
اس طرح سے ایسے افراد کے لئے نہ صرف سخت سزا مقرر کی گئی ہے بکہ انھیں گواہی دینے کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا ہے اور ان کی ہر بات کو بے وقعت بناکر رکھ دیا گیا ہے تاکہ پاکدامن افراد کا وقار مجروح نہ کرسکیں، علاوہ ازیں قرآن نے ان کے ماتھے پر فسق کی علامت بھی لگادی ہے اور معاشرے میں انھیں ذلیل ورسوا کرکے رکھ دیا ہے ۔
پاک دامن افراد کی عزت ووقار کے تحفظ کے لئے ایسا سخت اقدام صرف یہیں پر نہیں ہے بلکہ بہت سی دیگر اسلامی تعلیمات میں بھی موجود ہے، ان تعلیمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں باایمان اور پاک دامن عورت اور مرد کا عزت ووقار کس قدر اہم ہے ۔
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) فرماتے ہیں:
اذاتھم الموٴمن اخاہ انماث الایمان منن قلبہ کما ینماث الملح فی المائ
اگر کوئی مومن اپنے مومن بھائی پر کسی ایسی چیز کا الزام لگائے کہ جو اس میں نہیں ہے تو ایمان اس کے دل میں اس سے گھل جاتا ہے جیسے پانی نمک میں ۔
لیکن اسلام کسی پر واپسی کی راہ بند نہیں کرتا بلکہ ہر موقع پر گناہگاروںکو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنا آلودہ دامن پاک کریں اور گزشتہ خطاوٴں کی تلافی کریں لہٰذا بعد والی آیت میں فرمایا گیا: مگر وہ لوگ جو بعد ازاں توبہ کرلیں اور اصلاح وتلافی کرلیں تو خدا انھیں معاف کردیتا ہے کیونکہ الله غفور ورحیم ہے (إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَاٴَصْلَحُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ) ۔
کیا یہ استثناء صرف ”اٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْفَاسِقُونَ“ کے لئے یا ”وَلَاتَقْبَلُوا لَھُمْ شَھَادَةً اٴَبَدًا“ کے لئے بھی ہے، اس سلسلے میں مفسرین اور علماء کی آراء مختلف ہیں یہ استثناء صرف آخری جملے کی طرف لوٹے تو اب فاسق شمار نہیں ہوں گے لیکن ان کی گواہی آخرِ عمر تک قابلِ اعتبار نہیں ہوگی ۔
البتہ اصولِ فقہ میں جو قواعد تسلیم کئے جاچکے ہیں ان کے مطابق جو استثناء دو یا چند جملوںکے بعد آئے اس کا تعلق صرف آخری جملے سے ہوتا ہے لیکن اگر کچھ قرائن ایسے موجود ہوں کہ جو بتائیں کہ اس کا تعلق پہلے دو جملوں سے بھی ہے تو پھر بات دوسری ہے ۔ اتفاق کی بات ہے کہ زیرِ بحث آیت میں اس قسم کا قرینہ موجود ہے کیونکہ توبہ کے ذریعے فسق کا حکم اٹھ جائے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ گواہی قابلِ قبول نہ رہے کیونکہ شہادت کی عدم قبولیت فسق کی وجہ سے تھی، اب جس شخص نے توبہ کرلی ہے اور نئے سرے سے اُس نے ملکہٴ عدالت حاصل کرلیا ہے تو فسق اس سے دور ہوگیا ہے ۔
اہل بیت علیہم السلام سے متعدد روایات ایسی منوقل ہیں کہ جو اسی مفہوم پر زور دیتی ہیں، یہاں تک کہ امام صادق علیہ السلام اس تصریح کے بعد کہ جنھوں نے توبہ کرلی ہے ان افراد کی شہادت قابلِ قبول ہے، سوال کرنے والے شخص سے پوچھتے ہیں: جو فقہاء تھارے قریب رہتے ہیں وہ کیا کہتے ہیں؟
اس نے عرض کیا: وہ کہتے ہیں ان کی توبہ الله اور اس کے درمیان تو قبول ہوگی لیکن ان کی شہادت ہمیشہ کے لئے ناقابل ہے ۔
امام(علیه السلام) فرماتے ہیں:
بئس ما قالوا کان اٴبی یقول: اذا تاب ولم یعلم منہ الاخیر جازت شھادتہ.
انھوں نے بہت بُری بات کہی ہے، میرے والد فرمایا کرتے تھے: جو شخص توبہ کرلے اور پھر اس سے خیر اور اچھائی کے سوا کچھ نہ دیکھا جائے تو اس کی شہادت قبول ہے (1) ۔
متعدد دیگر روایات بھی اسی طرح کی وسائل الشیعہ کے اس باب میں موجود ہیں جس سے ہم نے مذکورہ بالا حدیث درج کی ہے یہ سب روایات ہم آہنگ ہیں، سوائے ایک روایت کے اور اسے تقیہ پر محمول کیا گیا ہے ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ”وَلَاتَقْبَلُوا لَھُمْ شَھَادَةً اٴَبَدًا“ میں ”اٴَبَدًا“ حکم کی عمومیت ی دلیل ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہر عمومیت میں استثناء (خصوصاً ”متصل“ کا استثناء) ہوسکتا ہے اس بناء پر یہ محض اشتباہ ہے کہ ”اٴَبَدًا“ کی تعبیر توبہ سے مانع ہے ۔
1۔ وسائل الشیعہ، ج۱۸، کتاب الشہادات، باب۳۶، ص۲۸۲.
۱۔ آیت میں ”رمی“ کا کیا معنی ہے؟سوره نور / آیه 4 - 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma