آسان شادی بیاہ کی ترغیب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۱۔ شادی خدائی حکم ہےسوره نور / آیه 32 - 34

اس سورہ کے آغاز سے لے کر یہاں تک جنسی آلودگیوں سے بچنے کے لئے مختلف طریقوں سے نہایت جچے تلے انداز میں گفتگو کی گئی ہے ان میں سے ہر طریقہ اور حکم ان برائیوں کو روکنے کے لئے اپنے مقام پر موٴثر ہے، زیرِ بحث آیات میں ایک اور اہم حوالے سے فحاشی اور برائی کا قلع قمہ کرنے کے لئے اقدام کیا گیا اور وہ شادی بیاہ کا سادہ، آسان اور بے ریاطریقہ، یہ بات مسلّم ہے کہ بدکاری اور فحاشی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ صحیح اور جائز طریقے سے انسان کی فطری ضرورت کو پورا کیا جائے ۔
لہٰذا زیرِ نظر پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: غیر شادی شدہ مردوں اور عورتوں کی شادی کردو اور اسی طرح نیک غلاموں اور کنیزوں کی بھی (وَاٴَنکِحُوا الْاٴَیَامَی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ) ۔
”ایامیٰ“ ”ایم“ (بروزن ”قیم“) کی جمع ہے، بنیادی طور پر تو یہ لفظ بے شوہر عورت کے معنی میں تھا لیکن بعد ازاں اس مرد کے لئے بھی استعمال ہونے لگا کہ جو بیوی کے بغیر ہو، اس لحاظ سے تمام مجرّد عورتیں اور مرد اس آیت کے مفہوم میں داخل ہیں چاہے وہ کنوارے ہوں یا نہ ہوں ۔
یہاں لفظ ”انکحوا“ (ان کا نکاح کرو) استعمال کیا گیا ہے حالانکہ شادی ایک اختیاری کام ہے اور طرفین کی رغبت ورضامندی وابستہ ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کی شادی کے لئے راہ ہموار کرو، احتیاج کی صورت میں مالی امداد کرو، مناسب رشتے کی تلاش میں مدد دواور ایسے مردوں اور عورتوں کو شادی پر آمادہ کرو، خلاصہ یہ کہ معاملات اور مشکلات کو حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرو، کیونکہ ایسے عموماً دوسروں کی وساطت کے بغیر انجام نہیں پاتے، مختصر یہ کہ آیت کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ اس میں دامے ، درمے، قدمے، سخنے ہر طرح کی مدد شامل ہے ۔
بلاشبہ تعاون کے بارے میں اسلام کا بنیادی اصول تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان تمام امور میں ایک دوسرے کی مدد کریں لیکن شادی بیاہ کے بارے میں تعاون کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔
اس مسئلے کی اس قدر اہمیت ہے کہ ایک حدیث میں امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
اٴفضل الشفاعات اٴن تشفع بین اثنین فی نکاح حق یجمع بینھما
بہترین تعاون یہ ہے کہ تو دوافراد کے درمیان شادی کے لئے ملاپ کردے یہاں تک کہ معاملہ تکمیل کو پہنچ جائے (1) ۔
ایک اور حدیث میں امام موسیٰ کاظم بن جعفر (علیہماالسلام ) سے مروی ہے کہ:
ثلاثة یستظلون بظل عرش الله یوم القیامة، یوم الّا ظلہ، رجل زوج اٴخاہ المسلم اٴو اٴخدمہ، اٴو کتم لہ سرّاً
قیامت کے دن کہ جب عرش الٰہی کے سوا کوئی نہ ہوگا تین گروہ اس کے سایہ میں ہوں گے، ایک وہ کہ جو اپنے مسلمان بھائی کی شادی کے لئے وسائل فراہم کرے گا اور دوسرا وہ کہ جو خدمت کی ضرورت کے وقت اسے خدمت گار مہیّا کرے گا اور تیسرا وہ کہ جو اپنے مسلمان بھائی کے راز کو چھپائے گا (2) ۔
ایک اور حدیث پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے مروی ہے:
کان لہ بکل خطوة خطاھا، اٴو بکل کلمة تکلم بھا فی ذٰلک، عمل سنة قیام لیلھا وصیام نھارھ.
جتنے قدم بھی (کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی بہن کی شادی کی) راہ میں اٹھائے گا اور جنتے لفظ بھی اس مقصد کے لئے ادا کرے گا ہر ایک کے بدلے اسے اس سال کی عبادت کا ثواب ملے گا کہ جس میں رات بھر عبادت کے لئے قیام کیا گیا ہو اور دن کو روزہ رکھا گیا ہو (3)۔

عموماً شادی نہ کرنے اور ا س سے بھاگنے کے لئے تنگ دستی اور غربت کا عذر پیش کیا جاتا ہے اس لئے قرآن اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے: غربت کی وجہ سے پیشان نہ ہونا اور ان کی شادی کی کوشش کرنا کیونکہ اگر وہ تنگدست ہوئے تو الله اپنے فضل وکرم کے ذریعے انھیں بے نیاز کردے گا (إِنْ یَکُونُوا فُقَرَاءَ یُغْنِھِمْ اللهُ مِنْ فَضْلِہِ) ۔
اور الله ایسے کام پر قادر ہے کیونکہ وہ بری وسعت رکھتا ہے اورعلیم ہے (وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ) ۔ اس کی قدرت اتنی وسیع ہے کہ عالمِ ہستی پر محیط ہے اور اس کا علم اتنا وسیع ہے کہ وہ تمام نیّتوں سے آگاہ ہے جو پاکدامنی کی حفاظت کے لئے شادی کرتے ہیں ان کی نیّتوں کو خوب جانتا ہے اور وہ ان سب پر اپنا فضل وکرم کرے گا۔
اس سلسلے میں ایک واضح تجزیہ اور متعدد روایات ہم بحث کے آخر میں پیش کریں گے ۔
بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ انسان خود بھی پوری کوشش کرتا ہے اور دوسرے بھی پوری سعی کرتے ہیں لیکن پھر بھی شادی نہیں ہوپاتی اور انسان مجبور ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ محروم رہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس مرحلے پر کچھ لوگ یہ گمان کرتے کرنے لگیں کہ اب ان کے لئے جنسی آلودگی جائز ہے اور ضرورت اس کا تقاضا کرتی ہے لہٰذا ساتھ ہی اگلی آیت میں پاکیزگی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے: اور وہ کہ جوشادی نہیں کرپاتے اور ان کے لئے وسیلہ نہیں بن جاتا انھیں عفّت وپاکدامنی اختیار کرنا چاہیے یہاں تک کہ الله اپنے فضل کے ذریعے انھیں بے نیاز کردے (وَلْیَسْتَعْفِفْ الَّذِینَ لَایَجِدُونَ نِکَاحًا حَتَّی یُغْنِیَھُمْ اللهُ مِنْ فَضْلِہِ) ۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس بحرانی مسئلے میں اور خدائی آزمائش کے دور میں برائی کے لئے تیار ہوجاوٴ اور اپنے کو معذور سمجھنے لگو کیونکہ ایسا کوئی عذر قابلِ قبول نہیں ہے بلکہ اس موقع پر ایمان اور تقویٰ کی قوت کام آنا چاہیے ۔
جہاں بھی غلاموں اور کنیزوں کے بارے میں گفتگو ہو، موقع کی مناسبت سے اسلام ان کی آزادی کی طرف خاص توجہ دلاتا ہے لہٰذا یہاں بھی ان کی شادی کی بات آئی تو ساتھ ہی ”مکاتبت“ کے طریقے سے ان کی آزادی کا ذکر بھی آگیا ہے، مکاتبت کا طریقہ یہ ہے کہ ایک قرارد داد کے ذریعے غلام کام کرتے ہیں اور قسط وار اپنے مالک کو رقم فراہم کرتے ہیں اور اس طرح آزاد ہوجاتے ہیں ۔
ارشاد ہوتا ہے: جو غلام آزادی کے لئے تم سے مکاتبت کا تقاضا کرتے ہیں ان کے ساتھ معاہدہ طے کرلو، اگر ان میں تم رشد اور بھلائی محسوس کرو (وَالَّذِینَ یَبْتَغُونَ الْکِتَابَ مِمَّا مَلَکَتْ اٴَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوھُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِیھِمْ خَیْرًا) ۔
”عَلِمْتُمْ فِیھِمْ خَیْرًا“ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم دیکھو کہ اس معاہدے کے لئے ان میں کافی رشد وہدایت موجود ہے اور پھر وہ اس پر عمل درآمد کی طاقت بھی رکھتے ہوں اور معاہدے کے لئے ان میں کافی رشد وہدایت موجود ہ ے اور پھر وہ اس پر عمل درآمد بھی رکھتے ہوں اور معاہدے کے مطابق مال ادا کرکے آزادی کی زندگی گزار سکنے کے اہل ہوں اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے اور یہ کام مجموعی طور پر ان کے حق میں نقصان دہ ہو اور نتیجةً وہ معاشرے کے لئے بوجھ بن رہے ہوں تو پھر یہ معاملہ کسی دوسرے وقت کے لئے اٹھا رکھو کہ جب ان میں یہ صلاحیت اور طاقت ہو ۔
اس کے بعد اس بناء پر کہ یہ اقساط ادا کرتے ہوئے غلاموں کو زیادہ زحمت ومشقت نہ ہو، قرآن حکیم حکم دیتا ہے: جو مال الله نے تمھیں دیا ہے اس میں سے کچھ انھیں دو (وَآتُوھُمْ مِنْ مَالِ اللهِ الَّذِی آتَاکُمْ) ۔
جو مال غلاموں کو دینے کا حکم دیا گیا ہے، اس سے کونسا مال مراد ہے؟ اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے زیادہ تر کہتے ہیں کہ مراد زکوٰة کا ایک حصّہ ہے، جیسا کہ سورہٴ توبہ کی آیت ۶ میں آیا ہے انھیں دیا جائے تاکہ وہ اپنا قرض ادا کرسکیں اور آزاد ہوجائیں ۔
بعض دیگر مفسرین کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ غلام کا مالک چند قسطیں اسے بخش دے یا اگر لے چکا ہے تو اسے واپس کردے تاکہ غلامی سے نجات کے لئے زیادہ توانائی حاصل کرلے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ چونکہ کام کے آغاز میں غلام اس قابل نہ ہوگا کہ مال مہیّا کرسکے لہٰذا اخراجات میں اس کی مدد کرنا چاہیے اور کچھ سرمایہ انھیں دینا چاہیے تاکہ وہ کوئی کام کاج شرع کرسکیں، اپنا نظام بھی چلاسکیں اور اپنے قرض کی اقساط بھی ادا کرسکیں ۔
البتہ مذکورہ تینوں تفاسیر باہم ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں کہ تمام مفہوم آیت میں جمع ہوں، حقیقی مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان مستضعف ومحروم افراد کی کچھ اس طرح مدد کریں کہ یہ جتنا جلدی ممکن ہوسکے غلامی سے نجات پالیں ۔
ایک حدیث میں ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”تضع عنہ من نجومہ التی لم تکن ترید ان تنقصہ، ولاترید فوق ما فی نفسہ“.
جس چیز کے لینے کا واقعاً تیرا خیال ہو تخفیف تجھے اس میں کرنا چاہیے(4) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ بعض لوگ شرعی حیلے بناتے ہیں، یہ بتانے کے لئے ہم نے قرآن کی اس آیت پر عمل کرتے ہوئے اپنے غلاموں کی مدد کی ہے کہ وہ پہلے ہی سے مکاتبت کی رقم جتنی انھیں لینا ہوتی اس سے زیادہ لکھ لیتے تھے تاکہ تخفیف کرتے وقت زیادہ لکھی ہوئی رقم چھوڑدیں، امام صادق علیہ السلام در اصل اس طرزِ عمل سے منع فرمارہے ہیں ۔
بعض لوگ اپنے مملوکوں سے ایک نہایت ہی قبیح کام لیتے تھے، زیرِ بحث آیت کے آخر میں اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے: دنیا کے زودگزر مال کی خاطر اپنی کنیزوں کو عصمت فروشی پر مجبور نہ کرو، جبکہ وہ پاک پاکیزہ رہنا چاہتی ہیں (وَلَاتُکْرِھُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَاءِ إِنْ اٴَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا) ۔
اس جملے کی تفسیر میں بعض مفسرین نے لکھا ہے:
عبد الله بن ابی کے پاس چھ کنیزیں تھیں، وہ مال کمانے کے لئے انھیں جسم فروشی پر مجبور کرتا تھا، جس وقت (اس سورہ میں) اسلام نے منافی عفّت عمل کی مخالفت کی اور انھیں ختم کرنے کے لئے اقدام کیا تو وہ کنیزیں رسول الله کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس مسئلے کی شکایت کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کام سے منع کیا گیا۔

یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ زمانہ ٴ جاہلیت میں لوگ کس قدر اخلاقی پستی میں مبتلا تھے، حتیّٰ کی ظہور اسلام کے بعد بھی لوگ ایسے کام جاری رکھے ہوئے تھے یہاں تک کہ اس آیت نے نازل ہوکر اس شرمناک کیفیت کو ختم کیا۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے زمانے میں کہ جسے بعض بیسویں صدی کا زمانہٴ جاہلیت قرار دیتے ہیں ۔ بعض ممالک میں یہ کام بڑے شدومد سے جاری ہے ان میں سے نام نہاد متمدّن اور ترقی یافتہ ملک بھی ہیں اور وہ حقوقِ انسانی کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں، زمانہٴ طاغوت میں یہ کام ہمارے ملک میں بھی وحشتناک صورت میں موجود تھا، معصوم اور سیدھی سادھی لڑکیوں کو فریب دے کر بدکاری کے اڈوں میں لے جاتے تھے اور پھر انھیں شیطانی پھندوں میں جکڑ کر تن فروشی پر مجبور کرتے تھے، اور ان پھندوں سے نکل بھاگنے کے راستے ان پر ہر طرف سے بند کردیتے تھے، اس طریقے سے وہ بے شمار دولت جمع کرتے تھے، اس داستان کی تفصیل بہت دردناک ہے اور ہمارے موضوع سے خارج ہے ۔
اگرچہ ظاہراً غلامی کا پرانا نظام موجود نہیں ہے لیکن آج کی نام نہاد مہذّب دنیا میں ایسے ایسے جرائم ہوتے ہیں کہ جو دورِ غلامی سے کہیں زیادہ وحشتناک ہیں، خدا دنیا کے لوگوں کو ان نام نہاد مہذّب انسانوں کے شر سے محفوظ رکھے، خدا کا شکر ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد ہمارے ملک میں ان شرمناک اعمال کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ”إِنْ اٴَرَدْنَ تَحَصُّنًا“ (اگر وہ پاک رہنا چاہتی ہیں....) کا مطلب یہ نہیں ہے ک ہ اگر خود وہ عورتیں اس کام کی طرف مائل ہوں تو پھر انھیں مجبور کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اس طرح کی تعبیر ”منتفی بہ انتفاء موضوع“ کہلاتی ہے کیونکہ ”اکراہ“ (مجبور کرنا) عدم رضا مندی کی صورت میں صادق آتا ہے ورنہ تن فروشی اور اس کے لئے ابھارنا ہر حالت میں گناہ عظیم ہے یہ تعبیر اس لئے ہے کہ اگر ان کنیزوں کے مالک تھوڑی سی بھی غیرت رکھتے ہوں تو انھیں ہوش آئے کہ یہ کنیزیں جنھیں ظاہراً کم تر سمجھا جاتا ہے جب وہ اس گناہ کی طرف مائل نہیں ہیں تو تو تم بہت کچھ بنتے ہو، پھر اس پستی کو کیوں قبول کرتے ہو ۔
قرآن کا اسلوب ہے کہ وہ گناہگاروں کے لئے لوٹ آنے کے دروازے کھلے رکھتا ہے اور توبہ واصلاح کی ترغیب دیتا ہے اس سلسلے میں آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا ہے اور جس کسی نے انھیں ا کام پر مجبور کیا (اور پھر وہ اس پر پشیمان ہوا) تو ان کے جبر کے بعد الله غفور ورحیم ہے (وَمَنْ یُکْرِھُّنَّ فَإِنَّ اللهَ مِنْ بَعْدِ إِکْرَاہِھِنَّ غَفُورٌ رَحِیمٌ) ۔
جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ہوسکتا ہے یہ جملہ کنیزوں کے مالکوں کی کیفیت کی طرف اشارہ ہو کہ جو جبر کی وجہ سے مجبوراً یہ کام کرواتی تھیں ۔
قرآن اپنی روش کے مطابق زیرِ بحث آخری آیت میں گزشتہ مباحث کی طرف مجموعی طور پر اشارہ کرتا ہے، ارشاد ہوتا ہے: ہم نے تم پر آیات نازل کیں کہ جو بہت سے حقائق واضح کرتی ہیں )وَلَقَدْ اٴَنزَلْنَا إِلَیْکُمْ آیَاتٍ مُبَیِّنَاتٍ) ۔
نیز ہم نے تم سے گزشتہ لوگوں کی مثالیں اور خبریں بیان کی ہیں (وَمَثَلاً مِنَ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ) ۔ اور یہ سب پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہیں (وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِینَ) ۔
1۔ وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۲۷، (باب ۱۲ از ابواب مقدمات نکاح)
2۔ ایضاً
3۔ ایضاً
4۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۱۰۶.
۱۔ شادی خدائی حکم ہےسوره نور / آیه 32 - 34
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma