۲۔ ”نُورٌ عَلیٰ نُورٍ“ کی تفسیر:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره نور / آیه 39 - 40۱۔ زیتون کا درخت
بزرگ مفسرین نے اس جملے کی تفسیر میں مختلف باتیں کی ہیں:
مرحوم طبرسی مجمع البیان میں کہتے ہیں: یہ ایسے انبیاء کی طرف اشارہ ہے کہ جو یکے بعد دیگرے ایک ہی نسل سے پیدا ہوتے ہیں اور راہِ ہدایت کو دوام بخشتے ہیں ۔
فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ یہ نور کی شعاعوں، روشنی کی تہوں اور شعاعوں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ مومن چار حالتوں میں ہوتا ہے اسے نعمت ملے تو شکرِ خدا بجالاتا ہے مصیبت پڑے آن پڑے تو صابر وبااستقامت ہوتا ہے، بات کرتا ہے تو سچ بولتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے تو عدالت کی جستجو کرتا ہے وہ جاہل لوگوں میں ایسے ہوتا ہے جیسے مردوں میں ایک زندہ، وہ پانچ انوار کے درمیان چلتا پھرتا ہے، اس کی گفتگو نور ہے، اس کا عمل نور ہے، اس کے آنے کا مقام نور ہے، اس کے جانے کی جگہ نور ہے اور اس کا ہدف روزِ قیامت نور خدا ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ قرآن میں پہلے نور سے مراد وحی الٰہی کے ذریعے ہدایتِ الٰہی کا نور ہے اور دوسرے نور سے مراد عقل کے ذریعے ہدایت الٰہی کا نور تو اور دوسرے نور سے مراد عقل کے ذریعے ہدایتِ الٰہی کا نور ہو، یا پہلا نور ہدایتِ تشریعی کا نور ہو اور دوسرا نور ہدایتِ تکوینی کا نور ہو ۔
اس بناء پر نور ہے نور کے اوپر نور۔
اسی طرح یہ جملہ کبھی تو نور کے مختلف سرچشموں (انبیاء) سے تفسیر ہوا ہے اور کبھی نور کی مختلف قسموں سے اور کبھی اس کے مختلف مراحل سے ۔
تاہم ممکن ہے یہ سب مفاہیم آیت میں جمع ہوں کہ جس کا مفہوم بہت وسیع ہے (غور کیجئے گا) ۔
سوره نور / آیه 39 - 40۱۔ زیتون کا درخت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma