۵۔ سلام وتحیّت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره نور / آیه 62 - 64۴۔ ”اٴَوْ مَا مَلَکْتُمْ“ کی تفسیر
جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ”تحیّة“ بنیادی طور پر ”حیات“ کے مادہ سے ہے، یہ لفظ سلامتی کے لئے اور دوسری زندگی کے لئے دعا کرنے کا مفہوم رکھتا ہے چاہے یہ دعا ”سلام علیکم“ یا ”السلام علینا“ کی شکل میں ہو چاہے ”حیات الله“ کی صورت میں لیکن عام طور پر ہر قسم کے اظہار محبّت کو ”تحیّت“ کہتے ہیں کہ جو ابتدائے ملاقات میں لوگ ایک دوسرے سے کرتے ہیں ۔
”تَحِیَّةً مِنْ عِنْدِ اللهِ مُبَارَکَةً طَیِّبَةً“ سے مراد یہ ہے کہ ”تحیّة“ کا ایک طرح سے الله سے رابطہ ہونا چاہیے یعنی ”سلام علیکم“ سے مراد یہ کہ ”الله کا تم پر سلام ہو“ ”الله تمھیں سلامت رکھّے“ کیونکہ موحّد اور خدا پرست جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے تو آخر کار وہ الله ہی سے ہوتی ہے اور اسی سے درخواست ہوتی ہے، فطری بات ہے کہ جو دعا ایسی ہو وہ مبارک بھی ہے اور پاک وطیّب بھی
(سلام اوراس کی اہمیت اور ہر قسم کے سلام وتحیّت کے جواب کے بارے میں ہم تفسیر نمونہ جلد چہارم میں سورہٴ نساء کی آیت۸۶ میں بحث کرچکے ہیں) ۔
سوره نور / آیه 62 - 64۴۔ ”اٴَوْ مَا مَلَکْتُمْ“ کی تفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma