کن اموال کو انفاق کیا جائے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
دولت کا بهترین مصرف
۱۴ .انفاق کے مختلف طریق ے ۱۳ . انمول انفاق

اس آیہٴ کریمہ میں راہ خدا میں انفاق کئے جانے والے مال کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ آیت کے پہلے جملہ میں پروردگار عالم، صاحبان ایمان کو حکم دے رہا ہے کہ ”طیبات“ میں سے انفاق کرو۔ لغت میں طیب، پاکیزہ کے معنیہے اور طیبات اس کی جمع ہے۔ جس طرح ظاہری اور مادی پاکیزہ چیز کو طیب کہا جاتا ہے اسی طرح باطنی اور معنوی پاکیزہ شے کو بھی طیب کہا جاتا ہے۔یعنی ایسے مال میں انفاق کرنا چاہئے جو اچھا،مفید اور قیمتی بھی ہو اور ہر طرح کے شک و شبہ اور آلودگی سے خالی بھی ہو۔
مذکورہ بالا شان نزول بھی آیت کی عمومیت پر تاکید کر رہا ہے۔جملہ ”وَلَسْتُمْ بِآخِذِ یْہِ اِلَّااٴَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ“(یعنی اوراگریہ خراب مال تم کو دیا جائے تو آنکھ بند کئے بغیر چھوو گے بھی نہیں ،)اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس سے مراد صرف ظاہری پا کیزگی ہے ۔اس لئے کہ با ایمان افرادبھی ظاہری اعتبار سے آلودہ اور بے قیمت یا معمولی مال کولینے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی مشتبہ مال کو ، مگر چشم پوشی اور کراہیت کے ساتھ ۔

 

 

 جملہ ”ما کسبتم“(جو تم حاصل کرو) تجارت کے ذریعہ حاصل ہونے والی آمدنی کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔
لہٰذا جملہ ”مما اخرجنا“ ہر طرح کی آمدنی کو شامل ہے اس لئے کہ سارے اموال کا سرچشمہ زمین اور اس کے مختلف منابع ہیں یہاں تک کہ صنعت ،تجارت اور کاریگری وغیرہ بھی اسی کے ذریعہ انجام پاتی ہے ۔
اسی کے ضمن میں یہ جملہ اس بات کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ ہے کہ پروردگار عالم نے ان سارے منابع کو تمہارے اختیار میں قرار دیا ہے لہٰذا ان میں سے راہ خدا میں انفاق کرنے سے ذرہ برابر بھی مضائقہ نہیں کرنا چاہئے ۔
اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے:وَلَاْ تَیَمَّمُوْا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِ یْہِ اِلَّااٴَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ “
چونکہ بعض لوگوں کی عادت بن جاتی ہے کہ ہمیشہ کم قیمت ،ناقابل استعمال چیزوں کو انفاق کرتے ہیں اس طرح کے انفاق نہ ہی انفاق کرنے والوں کی معنوی تربیت اور روحانی رشد کا سبب بنتے اور نہ ہی ضرورت مندوں کے لئے نفع بخش ثابت ہوتے ہیں بلکہ اس سے ان کی ایک طرح کی اہانت اور تحقیر ہوتی ہے ۔
لہٰذا یہاں پر صاف لفظوں میں لوگوں کو اس کام سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے: کیونکر اس طرح کے مال کو راہ خدا میں انفاق کر رہے ہو جسے تم بھی ناگواری اور کراہیت کے بغیراسے قبول کرنے پر تیار نہ ہو گے؟!! کیا تمہارے مسلمان بھائی اور اس سے بالا تر وہ پروردگار کہ جس کی راہ میں انفاق کررہے ہووہ سب تمہاری نظر میں تم سے کمتر ہوں!
در حقیقت یہ آیہٴ کریمہ ایک دقیق نکتہ کی طرف اشارہ کررہی ہے اور وہ یہ کہ جو کچھ راہ خدا میں خرچ کیا جاتا ہے اس کے ایک طرف فقراء اور ضرورت مند افراد ہیں اور دوسری طرف خدا ہے جس کی راہ میں انفاق کیا جا رہا ہے ۔ایسی صورت میں اگر پست اورکم قیمت اموال کو منتخب کیا جائے تو ایک طرفمقام اقدس پروردگار کی توہین ہو گی کہ اس کو طیب اور پاکیزہ چیزوں کے لائق نہیں سمجھا اور دوسری طرف فقراء اور ضرورت مندوں کی تحقیر اور بے عزتی ہو گی۔ اس لئے کہ ممکن ہے تنگدستی کے باوجود بھی وہ ایمان اور انسانیت کے بلند وبالا مرتبہ پر فائز ہوں اور اس طرح کے انفاق کے نتیجہ میں ان کی روح کبیدہ خاطر ہو جائے۔
اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے جو جملہ ”لاتیمموا“ (قصد و ارادہ نہ کرو ) میں پوشیدہ ہے۔ اس جملہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان جو کچھ بھی انفاق کررہا ہے اگر اس کے درمیان بغیر کسی توجہ کے کوئی ناپسندیدہ اور کم قیمت چیز شامل ہو جائے تو یہ شخص مذکورہ حکم میں داخل نہیں ہے اس لئے کہ یہ حکم ان لوگوں کے سلسلہ میں ہے جو جان بوجھ کر اس طرح کے انفاق پر اقدام کرتے ہیں ۔
آیت کے آخر میں ارشاد فرماتا ہے : ”وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ“ آگاہ رہو کہ اس خدا کی راہ میںخرچ کر رہے ہو جو تمہارے انفاق سے بے نیاز ہے اور ساری حمد و ثنا اسی کے لئے ہے اس لئے کہ اسی نے یہ ساری نعمتیں تمہارے اختیار میں قرار دی ہیں ۔
یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ یہاں پر” حمید “(تعریف کرنے والے) کے معنی میں ہو یعنی پروردگار عالم تمہارے انفاق سے بے نیازی کے باوجود تمہاری تعریف کرتا ہے اورتمہیں اس کی جزادیتا ہے لہٰذا کوشش کرو کہ پاک وپاکیزہ اور حلال اموال میں سے اس کی راہ میں انفاق کرو۔

۱۴ .انفاق کے مختلف طریق ے ۱۳ . انمول انفاق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma