فرشتوں کا سوال

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
فرشتے امتحان کے سانچے میںانبیاء علیهم السلام کے واقعات

فرشتوں نے حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے نہ کہ اعتراض کى غرض سے عرض کیا :''کیا زمین میں اسے جانشین قرار دے گا جو فساد کرے گا اور خون بہا ئے گا_ جب کہ ہم تیرى عبادت کرتے ہیں ،تیرى تسبیح وحمد کرتے ہیں اور جس چیز کى تیرى ذات لائق نہیں اس سے تجھے پاک سمجھے ہیں''_(1)
مگر یہاں پرخدانے انہیں سربستہ ومجمل جواب دیا جس کى وضاحت بعد کے مراحل میں آشکار ہو فرمایا :''میں ایسى چیزوں کو جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے''_(2)
فرشتوں کى گفتگو سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ انسان سر براہى نہیں بلکہ فساد کرے گا، خون بہائے گا اور خرابیاں کرے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آخروہ کس طرح سمجھے تھے _
بعض کہتے ہیں خدا نے انسان کے آئندہ حالات بطور اجمال انہیں بتا ئے تھے جب کہ بعض کا احتمال ہے کہ ملائکہ خود اس مطلب کو لفظ '
'فى الارض''(زمین میں) سے سمجھ گئے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے انسان مٹى سے پیدا ہوگا اور مادہ اپنى محدودیت کى وجہ سے طبعاً مرکز نزاع وتزاحم ہے کیونکہ محدود مادى زمانہ انسانوں کى اس طبیعت کو سیروسیراب نہیں کرسکتا جوزیادہ کى طلب رکھتى ہے یہاں تک کہ اگر سارى دنیا بھى ایک فرد کو دے دى جائے تو ممکن ہے وہ پھر بھى سیر نہ ہو اگر کافى احساس ذمہ دارى نہ ہو تو یہ کیفیت فساد اور خونریزى کا سبب بنتى ہے _
بعض دوسرے مفسرین معتقد ہیں کہ فرشتوں کى پیشین گوئی اس وجہ سے تھى کہ آدم روئے زمین کى پہلى مخلوق نہیں تھے بلکہ اس سے قبل بھى دیگر مخلوقات تھیں;جنہوں نے نزاع،جھگڑااور خونریزى کى تھی،ان سے پہلے مخلوقات کى برى فائل نسل آدم کے بارے میں فرشتوں کى بد گمانى کا باعث بنى _
یہ تین تفاسیر ایک دوسرے سے کچھ زیادہ اختلاف نہیں رکھتیں یعنى ممکن ہے یہ تمام امور فرشتوں کی
 اس توجہ کا سبب بنا ہو اور دراصل یہ ایک حقیقت بھى تھى جسے انہوں نے بیان کیا تھا یہى وجہ ہے کہ خدا نے جواب میں کہیں بھى اس کا انکار نہیں کیا بلکہ اس حقیقت کے ساتھ ساتھ ایسى مزید حقیقتیں انسان اور اس کے مقام کے بارے میں موجود ہیں جن سے فرشتے آگاہ نہیں تھے _
فرشتے سمجھتے تھے اگر مقصد عبودیت اور بند گى ہے تو ہم اس کے مصداق کامل ہیں ،ہمیشہ عبادت میں ڈوبے رہتے ہیں لہذا سب سے زیادہ ہم خلافت کے لائق ہیں لیکن وہ اس سے بے خبرتھے کہ ان کے وجود میں شہوت وغضب اور قسم قسم کى خواہشات موجود نہیں جب کہ انسان کو میلانات وشہوات نے گھیر رکھا ہے اور شیطان ہر طرف سے اسے وسوسہ میںڈالتا رہتا ہے لہذا ان کى عبادت انسان کى عبادت سے بہت زیادہ فرق رکھتى ہے کہاں اطاعت اور فرمانبردارى ایک طوفان زدہ کى اور کہاں عبادت ان ساحل نشینوں کى جو مطمئن، خالى ہاتھ اور سبک بارہیں _
انہیں کب معلوم تھا کہ اس آدم کى نسل سے محمد ،ابراہیم،نوح،موسی، عیسى علیہم السلام جیسے انبیاء اور ائمہ اہل بیت (ع) جیسے معصوم اور ایسے صالح بندے اور جانباز شہید مرد اور عورتیں عرصئہ وجود میں قدم رکھیں گے جو پروانہ وار اپنے آپ کو راہ خدا میں پیش کریں گے ایسے افراد جن کے غور وفکر کى ایک گھڑى فرشتوں کى سالہا سال کى عبادت کے بہتر ہے _
یہ بات قابل توجہ ہے کہ فرشتوں نے اپنے صفات کے بارے میں تین چیزوں کا سہارا لیا تسبیح، حمد اور تقدیس ،در حقیقت وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر ہدف اور غرض ،اطاعت اور بندگى ہے تو ہم فرمانبردار ہیں اور اگر عبادت ہے تو ہم ہر وقت اس میں مشغول رہتے ہیں اور اگر اپنے آپ کو پاک رکھنا یا صفحہ ارضى کو پاک رکھنا ہے تو ہم ایسا کریں گے جب کہ یہ مادى انسان خود بھى فاسد ہے اور روئے زمین کو بھى فاسد کردے گا _
حقائق کو تفصیل سے ان کے سامنے واضح کرنے کے لئے خداوندعالم نے ان کى آزمائشے کے لئے اقدام کیا تاکہ وہ خود اعتراف کریں کہ:
'' ان کے اور اولاد آدم کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے ''_
 


(1)سورہ بقرہ آیت30
(2)سورہ بقرہ آیت30

 

فرشتے امتحان کے سانچے میںانبیاء علیهم السلام کے واقعات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma