آغاز طوفان

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
نوح علیہ السلام کا بیٹابدکاروں کے ساتھ رہا کشتى بنارہے ہو دریابھى بنائو

گزشتہ صفحات میں ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح حضرت نوح علیہ السلام اور سچے مومنین نے کشتى نجات بنانا شروع کى اور انہیں کیسى کیسى مشکلات آئیں اور بے ایمان مغرور اکثریت نے کس طرح ان کا تمسخراڑایا اس طرح تمسخر اڑانے والوں نے کس طرح اپنے آپ کو اس طوفان کے لئے تیارکیا جو سطح زمین کو بے ایمان مستکبرین کے منحوس وجود سے پاک کرنے والا تھا _
یہاں پر اس سرگزشت کے تیسرے مرحلے کے بارے میں قرآن گویا اس ظالم قوم پر نزول عذاب کى بولتى ہوئی تصویر کو لوگوں کے سامنے پیش کررہا ہے _
پہلے ارشاد ہوتا ہے :''یہ صورت حال یونہى تھى یہاں تک کہ ہماراحکم صا در ہوا اور عذاب کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے پانى تنور کے اندر سے جو ش ما رنے لگا''_(1)
اس بار ے میں کہ طوفان کے نزدیک ہونے سے تنور سے پانى کا جوش مارنا کیامناسبت رکھتا ہے مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے_(2)
موجودہ احتمالات میں سے یہ احتمال زیادہ قوى معلوم ہوتا ہے کہ یہاں '' تنور'' اپنے حقیقى اور مشہور معنى میں آیا ہے اور ہوسکتا ہے اس سے مراد کوئی خاص تنور بھى نہ ہو بلکہ ممکن ہے کہ اس سے یہ نکتہ بیان کرنا مقصود ہوکہ تنور جو عام طوپر آگ کا مرکزہے جب اس میں سے پانى جوش مارنے لگا تو حضرت نوح اور ان کے اصحاب متوجہ ہوئے کہ حالات تیزى سے بدل رہے ہیں اور انقلاب قریب تر ہے یعنى کہاں آگ اور کہاں پانى بالفاظ دیگر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ زیرزمین پانى کى سطح اس قدراوپر آگئی ہے کہ وہ تنور کے اندر سے جو عام طور پر خشک ،محفوظ اور اونچى جگہ بنایا جاتا ہے ، جوش ماررہا ہے تو وہ سمجھ گئے کہ کوئی اہم امر درپیش ہے اور قدرت کى طرف سے کسى نئے حادثے کاظہور ہے _ اور یہى امر حضرت نوح اور ان کے اصحاب کے لئے خطرے کا الارم تھا کہ وہ اٹھ کر کھڑے ہوں اور تیار رہیں _
شاید غافل اور جاہل قوم نے بھى اپنے گھر وں کے تنور میں پانى کو جوش مارتے دیکھا ہو بہرحال وہ ہمیشہ کى طرح خطرے کے ان پر معنى خدائی نشانات سے آنکھ کان بند کیے گزرگئے یہاں تک کہ انہوں نے اپنے آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھى غور وفکر کى زحمت نہ دى کہ شاید شرف تکوین میں کوئی حادثہ پوشیدہ ہواور شاید حضرت نوح(ع) جن واقعات کى خبر دیتے تھے ان میں سچائی ہو _
بعض نے کہا ہے کہ یہاں ''تنور'' مجازى اور کنائی معنى میں ہے جو اس طرف اشارہ ہے کہ غضب الہى کے تنورمیں جوش پیدا ہوا اوروہ شعلہ ورہوا اوریہ تباہ کن خدائی عذاب کے نزیک ہونے کے معنى میں ہے ایسى تعبیر فارسى اور عربى زبان میں استعمال ہوتى ہیں کہ شدت غضب کو آگ کے جوش مارنے اور شعلہ ور ہونے سے تشبیہ دى جاتى ہے _
اس وقت نوح(ع) کو ''ہم نے حکم دیا کہ جانوروں کى ہرنوع میں سے ایک جفت (نراور مادہ کا جوڑا) کشتى میں سوار کرلو '' _تاکہ غرقاب ہو کر ان کى نسل منقطع نہ ہوجائے _
اور اسى طرح اپنے خاندان میں سے جن کى ہلاکت کا پہلے سے وعدہ کیا جاچکا ہے ان کے سواباقى افرادکو سوار کرلو نیز مومنین کو کشتى میں سوار کرلو ''_(3)


(1)سورہ ہو دآیت30
(2) بعض نے کہا ہے کہ تنور سے پانى کا جوش مارنا خدا کى طرف سے حضرت نوح کے لئے ایک نشانى تھى تاکہ وہ اصل واقعہ کى طرف متوجہ ہوں اور اس موقع پروہ اور ان کے اصحاب ضرورى اسباب ووسائل لے کر کشتى میں سوار ہوجائیں _

(3) سورہ ہو دآیت40

 

نوح علیہ السلام کا بیٹابدکاروں کے ساتھ رہا کشتى بنارہے ہو دریابھى بنائو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma