تم یہ بہترین اور شیرین غذا کیوں نہیں کھاتے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
جناب ابراہیم (ع) نمرودیوں کى عدالت میں ابراہیم علیہ السلام کى بت شکنى کا زبردست منظر

حضرت ابراہیم (ع) اکیلے شہرمیں رہ گئے اوربت پرست شہرخالى کرکے باہر چلے گئے حضرت ابراہیم نے اپنے ادھر ادھر دیکھا، شوق کى بجلى ان کى آنکھوں میں چمکى ،وہ لمحات جن کا وہ ایک مدت سے انتظار کررہے تھے آن پہنچے ،انھوں نے اپنے آپ سے کہا، بتوں سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑاہو اور ان کے پیکروں پر سخت
دوسرایہ کہ کیا واقعا وہ بیمار تھے کہ انھوں نے کہا میں بیمارہوں ؟انھیںکیا بیمارى تھى ؟
پہلے سوال کا جواب بابل کے لوگوںکے اعتقادات اوررسوم وعادات کو دیکھتے ہوئے واضح وروشن ہے وہ علم بخوم میں بہت ماہر تھے _یہاں تک کہ کہتے ہیں کہ ان کے بت بھى ستاروں کے ہیکلوں اور شکلوں میں تھے اور اسى بناپر ان کا احترام کرتے تھے کہ وہ ستاروںکے سمبل تھے _
البتہ علم بخوم میں مہارت کے ساتھ ساتھ بہت سى خرافات بھى ان کے یہاں پائی جاتى تھیں منجملہ یہ کہ وہ ستاروں کو اپنى تقدیر میں موثر جاتے تھے اور ان سے خیروبرکت طلب کرتے تھے اور ان کى وضع وکیفیت سے آنے والے واقعات پر استدلال کرتے تھے ، ابراہیم نے اس غرض سے کہ انھیں مطمئن کردیں ، ان کى رسوم کے مطابق آسمان کے ستاروں پر ایک نظر ڈالى تاکہ وہ یہ تصور کریں کہ انھوں نے اپنى بیمارى کى پیشن گوئی ستاروں کے اوضاع کے مطالعے سے کى ہے اور وہ مطمئن ہوجائیں _
بعض بزرگ مفسرین نے یہ احتمال بھى ذکر کیا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ ستاروں کى حرکت سے اپنى بیمارى کا وقت ٹھیک طورسے معلوم کرلیں کیونکہ ایک قسم کى بیمارى انھیں تھى وہ یہ کہ بخار انھیں ایک خاص وقفہ کے ساتھ آتا تھا لیکن بابل کے لوگوں کے افکارونظریات کى طرف توجہ کرتے ہوئے پہلااحتمال زیادہ مناسب ہے _
بعض نے یہ احتمال بھى ذکرکیا ہے کہ ان کا آسمان کى طرف دیکھنا درحقیقت اسرار آفرینش میں مطالعہ کے لئے تھا اگر چہ وہ آپ کى نگاہ کو ایک منجم کى نگاہ سمجھ رہے تھے جو یہ چاہتا ہے کہ ستاروں کے اوضاع سے آئندہ کے واقعات کى پیش بینى کر ے_
دوسرے سوال کے مفسرین نے متعدد جواب دیئے ہیں ، منجملہ ان کے یہ ہے کہ وہ واقعا ًبیمار تھے ،اگرچہ وہ صحیح وسالم بھى ہوتے تب بھى جشن کے پروگرام میں ہرگز شرکت نہ کرتے ، لیکن ان کى بیمارى ان مراسم میںشرکت نہ کرنے اور بتوں کو توڑنے کے لئے ایک سنہرى موقع اور اچھا بہانہ بھى تھا، اور اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ انھوں نے یہاں''توریہ''کیا تھا ، کیونکہ انبیاء کے لئے '' توریہ ''کرنا مناسب نہیں ہے .
ضرب لگا ایسى ضرب جو بت پرستوں کے سوئے دماغوں کو ہلاکر رکھ دے اور انھیں بیدارکردے _
قرآن کہتاہے :''وہ ان کے خدائوں کے پاس آیا ،ایک نگاہ ان پر اور کھانے کے ان برتنوں پر جوان کے اطراف میں موجودتھے ، ڈالى اور تمسخر کے طور پر کہا : تم یہ کھانے کھاتے کیوں نہیں'' ؟ (1)
یہ کھانے تو تمہارى عبادت کرنے والوں نے فراہم کیے ہیں _مرغن وشیرین ، طرح طرح کى رنگین غذائیں ہیں ، کھاتے کیوں نہیں ہو؟
اس کے بعد مزید کہتا ہے :'' تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ تم بات کیوں نہیں کرتے ؟ تم گونگے کیوں بن گئے ہو ؟تمہارامنہ کیوں بندہے_'' (2)
اس طرح کے تمام بیہودہ اور گمراہ عقائد کامذاق اڑایا بلاشک وہ اچھى طرح جانتے تھے کہ وہ نہ کھانا کھاتے ہیں اور نہ ہى بات کرتے ہیں اور بے جان موجودات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ،لیکن حقیقت میں وہ یہ چاہتے تھے کہ اپنى بت شکنى کے اقدام کى دلیل اس عمدہ اور خوبصورت طریقہ سے پیش کریں _
پھر انھوں نے اپنى آستین چڑھالی، کلہاڑا ہاتھ میں اٹھایا اور پورى طاقت کے ساتھ اسے گھمایا اور بھر پور ''توجہ کے ساتھ ایک زبردست ضرب ان کے پیکر پر لگائی ''_ (3)
بہرحال تھوڑى سى دیر میں وہ آباداور خوبصورت بت خانہ ایک وحشت ناک ویرانہ ہوگیا _تمام بت ٹوٹ پھوٹ گئے ہر ایک ہاتھ پائوں تڑوائے ہوئے ایک کونے میں پڑاتھا اور سچ مچ بت پرستوں کے لئے ایک دلخراش ، افسوسناک اور غم انگیز منظر تھا _ ابراہیم اپنا کام کرچکے اور پورے اطمینان وسکون کے ساتھ بتکدہ سے باہر آئے اور اپنے گھر چلے گئے اب وہ اپنے آپ کو آئندہ کے حوادث کے لئے تیار کررہے تھے _
وہ جانتے تھے کہ انھوں نے شہرمیں بلکہ پورے ملک بابل میں ایک بہت بڑادھماکہ کیا ہے جس کى صدابعد میں بلند ہوگى _غصہ اور غضب کا ایک ایسا طوفان اٹھے گا اور وہ اس طوفان میںاکیلے ہوں گے _لیکن ان کا خدا موجود ہے اور وہى ان کے لئے کافى ہے


(1)سورہ صافات آیت91
(2)سورہ صافات آیت92
(3) سورہ صافات آیت 93
 

 


جناب ابراہیم (ع) نمرودیوں کى عدالت میں ابراہیم علیہ السلام کى بت شکنى کا زبردست منظر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma