بت تو بولتے ہى نہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
ابراہیم (ع) کو جلا دیا جائےزودگذربیداری

لیکن افسوس : کہ جہالت وتعصب اور اندھى تقلید کا زنگ اس سے کہیں زیادہ تھا کہ وہ توحیدکے اس علمبردارکى صیقل بخش پکار سے کلى طورپر دور ہوجاتاہے _
افسوس کہ یہ روحانى اور مقدس بیدارى زیادہ دیر تک نہ رہ سکى اور ان کے آلودہ اور تاریک ضمیر میں ، جہالت اور شیطانى قوتوں کى طرف سے اس نور توحید کے خلاف قیام عمل میں آگیا اور ہر چیز اپنى پہلى جگہ پر پلٹ آئی قرآن کتنى لطیف تعبیر پیش کررہا ہے : '' اس کے بعد وہ اپنے سرکے بل الٹے ہوگئے_''(1)
اور اس غرض سے کہ اپنے گونگے اور بے زبان خدائوں کى طرف سے کوئی عذرپیش کریں ، انہوں نے کہا : '' تو تو جانتاہے کہ یہ باتیں نہیں کرتے_''(2)
یہ توہمیشہ چپ رہتے ہیں اور خاموشى کے رعب کو نہیں توڑتے _
اور اس تراشے ہوئے عذر کے ساتھ انہوں نے یہ چاہا کہ بتوں کى کمزورى ، بدحالى اور ذلت کو چھپائیں _
یہ وہ مقام تھا کہ جہاں ابراہیم جیسے ہیرو کے سامنے منطقى استدلال کے لئے میدان کھل گیا تاکہ ان پر بھر پورحملے کریں اور ان کے ذہنوں کو ایسى سرزنش اور ملامت کریں کہ جو منطقى اور بیدار کرنے والى ہو '' (ابراہیم نے ) پکار کرکہا: کیا تم خداکو چھوڑکر دوسرے معبودوں کى پرستش کرتے ہو کہ جونہ تمہیں کچھ فائدہ پہنچاتے ہیں اور نہ ضرر '' (3)
یہ خیالى خدا کہ جو نہ بات کرنے کى قدرت رکھتے ہیں ،نہ شعورو ادراک رکھتے ہیں ،نہ خود اپنا دفاع کرسکتے ہیں ، نہ بندوں کو اپنى حمایت کے لئے بلاسکتے ہیں ،اصلا ًان سے کو نساکام ہوسکتا ہے اور یہ کس درد کى دوا ہیں ؟ ایک معبود کى پرستش یا تو اس بناء پرہوتى ہے کہ وہ عبودیت کے لائق ہے تو یہ بات بتوں کے بارے میں کوئی مفہوم نہیں رکھتى ،یا کسى فائدہ کى امیدمیں ہوتى ہے اور یا ان سے کسى نقصان کے خوف سے ، لیکن بتوں کے توڑنے کے میرے اقدام نے بتادیا کہ یہ کچھ بھى نہیں کرسکتے تو کیا اس حال میں تمہارا یہ کام احمقانہ نہیں ہے ؟
پھر یہ معلم توحیدبات کو اس سے بھى بالاترلے گیااور سرزنش کے تازیانے ان کى بے درد روح پر لگائے اور کہا : تف ہے تم پر بھى اور تمہارے ان خدائوں پر بھى کہ جنہیں تم نے خدا کوچھوڑکر اپنا رکھاہے _''
''کیا تم کچھ سوچتے نہیں ہو اور تمہارے سرمیں عقل نہیں ہے _''(4)
لیکن انہیں برابھلاکہنے اور اور سرزنش کرنے میں نرمى اور ملاء مت کو بھى نہیں چھوڑا کہ کہیں اور زیادہ ہٹ دھرمى نہ کرنے لگیں درحقیقت ابراہیم نے بہت ہى جچے تلے انداز میں اپنا منصوبہ آگے بڑھایا پہلى مرتبہ انہیں توحید کى طرف دعوت دیتے ہوئے انہیں پکار کرکہا : یہ بے روح مجسمے کیا ہیں ؟ کہ جن کى تم پرستش کرتے ہو؟ اگر تم یہ کہتے ہو کہ یہ تمہارے بڑوں کى سنت ہے تو تم بھى گمراہ ہو اور وہ بھى گمراہ تھے _
دوسرے مرحلے میں ایک عملى اقدام کیا تاکہ یہ بات واضح کردیں کہ یہ بت اس قسم کى کوئی قدرت نہیں رکھتے کہ جو شخص ان کى طرف ٹیڑھى نگاہ سے دیکھے تو اس کو نابود کردیں، خصوصیت کے ساتھ پہلے سے خبردار کرکے بتوں کى طرف گئے اور انہیں بالکل درہم وبرہم کردیا تاکہ یہ بات واضح کریں کہ وہ خیالات وتصورات جو انہوں نے باندھے ہوئے ہیں سب کے سب فضول اور بے ہودہ ہیں _
تیسرے مرحلے میں اس تاریخى عدالت میں انہیں برى طرح پھنسا کے رکھ دیا کبھى ان کى فطرت کو ابھارا، کبھى ان کى عقل کو جھنجھوڑا، کبھى پندو نصیحت کى اور کبھى سرزنش وملامت _
خلاصہ یہ کہ اس عظیم خدائی معلم نے ہر ممکن راستہ اختیار کیا اور جو کچھ اس کے بس میں تھا اسے بروئے کار لایا لیکن تاثیرکے لئے ظرف میں قابلیت کا ہونا بھى مسلمہ شرط ہے _ افسوس یہ اس قوم میں موجود نہیں تھی_
لیکن بلاشبہ ابراہیم کى باتیں اور کام ، توحیدکے بارے میں کم از کم استفہامى علامات کى صورت میں ان کے ذہنوں میں باقى رہ گئے اور یہ آیندہ کى وسیع بیدارى اور آگاہى کے لئے ایک مقدمہ اور تمہید بن گئے _
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کچھ افراد اگرچہ وہ تعداد میں بہت کم تھے ، لیکن قدر وقیمت کے لحاظ سے بہت تھے ،ان پر ایمان لے آئے تھے اور نسبتاًکچھ آمادگى کا سامان دوسروں کے لئے بھى پیدا ہوگیا تھا _


(1)سورہ انبیاء آیت 65
(2) سورہ انبیاء آیت 65
(3)سورہ انبیاء آیت66
(4)سورہ انبیاء آیت 67

 


ابراہیم (ع) کو جلا دیا جائےزودگذربیداری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma