اے بنیا مین تم نے ہمیں ذلیل کر دیا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
یوسف نے بھى چورى کى تھیاے اہل قافلہ تم چو رہو

پیمانہ بر آمد ہوا تو تعجب سے بھائیوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے گویا غم واندوہ کا پہاڑان کے سروں پر آگرا اور انہیں یوں لگا جیسے وہ ایک عجیب مقام پر پھنس گئے ہیں کہ جس کے چاروں طرف کے راستے بند ہو گئے ہیں ایک طرف ان کا بھائی ظاہر ًا ایسى چورى کا مر تکب ہوا جس سے ان کے سرندامت سے جھک گئے اور دوسرى طرف ظاہراً عزیز مصر کى نظروں میں ان کى عزت وحیثیت خطرے میں جاپڑى کہ اب آیندہ کے لئے اس کى حمایت حاصل کرنا ان کے لئے ممکن نہ رہا اور ان تمام باتو ں سے قطع نظر انہوں نے سوچا کہ باپ کو کیا جواب دیں گے اور وہ کیسے یقین کر ے گا کہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے _
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس مو قع پربھائیوں نے بنیامین کى طرف رخ کر کے کہا : اے بے خبر : تو نے ہمیں رسوا کردیا ہے اور ہمارا منہ کالا کردیا ہے تو نے یہ کیساغلط کام انجام دیا ہے ؟(نہ تو نے اپنے آپ پر رحم کیا ،نہ ہم پر اور نہ خاندان یعقوب (ع) پر کہ جو خاندان نبوت ہے ) آخر ہمیں بتا تو سہى کہ تو نے کس وقت پیمانہ اٹھا یا اور اپنے بار میں رکھ لیا؟
بنیامین نے جو معاملے کى اصل اور قضیے کے باطن کو جانتا تھا ٹھنڈے دل سے جواب دیا کہ یہ کام اسى شخص نے کیا ہے جس نے تمہارى دى ہوئی قیمت تمہارے بارمیں رکھ دى تھى لیکن بھائیوں کو اس حادثے نے اس قدر پریشان کر رکھا تھا کہ انھیں پتہ نہیں چلا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے_
پھر قرآن مزید کہتا ہے:'' ہم نے اس طرح یوسف (ع) کے لئے ایک تدبیر کی''_(1)( تاکہ وہ اپنے بھائی کو دوسرے بھائیوں کى مخالفت کے بغیر روک سکیں )(2) اسى بناء پر قرآن کہتا ہے:'' یوسف ملک مصر کے قانون کے مطا بق اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے اور اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے_'' (3)
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مصریوں اور کنعان کے باشندوں میں چورى کى سزا مختلف تھی_ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں اور احتمالاً اہل کنعان میں اس عمل کى سزا یہ تھى کہ چور کو اس چورى کے بدلے میں(ہمیشہ کے لیے یا وقتى طور پر)غلام بنالیا جاتا _لیکن مصریوں میں یہ سزارائج نہ تھى بلکہ چوروں کو دوسرے ذرائع سے مثلاً مار پیٹ سے اور قید و بند وغیرہ سے سزا دیتے تھے_
علامہ طبرسى نے مجمع البیان میں نقل کیا ہے کہ اس زمانے میں ایک گروہ میں یہ طریقہ رائج تھا کہ وہ چور کو ایک سال کے لیے غلام بنالیتے تھے_ نیز یہ بھى نقل کیا گیا ہے کہ خاندان یعقوب علیہ السلام میں چورى کى مقدار کے برابر غلامى کى مدت معین کى جاتى تھى (تا کہ وہ اسى کے مطابق کام کرے)_


(1) سورہ یوسف ایت76

(2) سورہ یوسف آیت 76
(3)یہاں پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں :
1_بے گناہ پر چورى کا الزام ؟
کیا جائز تھا کہ ایک بے گناہ شخص پر چورى کا اتہام لگایا جائے،ایسا اتہام کہ جس کے بُرے اثار نے باقى بھائیوں کو بھى کسى حد تک اپنى لپٹ میں لے لیا؟
اس سوال کا جواب بھى خود واقعے میں موجود ہے اور وہ یہ کہ یہ معاملہ خودبنیامین کى رضا مندى سے انجام پایا تھا ،کیونکہ حضرت یوسف نے پہلے اپنے اپ کو اس سے متعارف کروایا تھا اور وہ جانتا تھا کہ یہ منصوبہ خود اس کى حفاظت کے لئے بنایا گیا ہے،نیز اس سے بھائیوں پر بھى کوئی تہمت نہیں لگى البتہ انھیں اضطراب و پریشانى ضرور ہوئی جس میں کہ ایک اہم امتحان کى وجہ سے کوئی ہرج نہ تھا _
2_چورى کى نسبت سب کى طرف کیوں دى گئی ؟
کیا (انکم اسارقون )''یعنى تم چور ہو ''کہہ کر سب کى طرف چورى کى نسبت نہیں دینا جھوٹ نہ تھا اور اس جھوٹ اور تہمت کا کیا جواز تھا ؟
ذیل کے تجزیے سے اس سوال کا جواب واضح ہو جا ئے گا :
اولاً یہ معلوم نہیں کہ یہ بات کہنے والے کو ن لو گ تھے قرآن میں صرف اس قدر ہے ''قالوا ''یعنى انہوں نے کہا'' ہوسکتا ہے یہ بات کہنے والے حضرت یوسف کے کچھ کار ندے ہوں کہ جب انہوں نے دیکھا کہ مخصوص پیمانہ نہیں ہے یقین کر لیا کہ کنعان کے قافلے میں سے کسى شخص نے اسے چرالیا ہے اور یہ معمول ہے کہ اگر کوئی چیز ایسے افراد میں چورى ہو جائے کہ جو ایک ہى گروہ کى صورت میں متشکل ہو اور اصل چور پہچا نا نہ جائے تو سب کو مخاطب کر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نے یہ کام کیا ہے یعنى تم میں سے ایک نے یا تم میں سے بعض نے ایسا کیا ہے_
ثانیا ًاس بات کا اصلى نشانہ بنیامین تھا جو کہ اس نسبت پر راضى تھا کیونکہ اس منصوبے میں ظاہرا تو اس پر چورى کى تہمت لگى تھى لیکن درحقیقت وہ اس کے اپنے بھائی یو سف کے پاس رہنے کے لئے مقدمہ تھى اور یہ جو سب پر الزام آیا یہ ایک بالکل--

یوسف نے بھى چورى کى تھیاے اہل قافلہ تم چو رہو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma