دیوانگى کى تہمت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
تمہارا ملک خطرے میں ہےفرعون سے معرک آرا مقابلہ

جب موسى علیہ السلام نے فرعون کو دوٹوک اور قاطع جواب دے دیا جس سے وہ لا جواب اور عاجز ہوگیا تو اس نے کلام کا رخ بدلا اور موسى علیہ السلام نے جو یہ کہا تھا''میں رب العالمین کا رسول ہوں''تو اس نے اسى بات کو اپنے سوال کا محور بنایا اور کہا یہ رب العالمین کیا چیز ہے؟(1)
بہت بعید ہے کہ فرعون نے و اقعاًیہ بات مطلب کے لئے کى ہو بلکہ زیادہ تر یہى لگتا ہے کہ اس نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا تھا اور تحقیر کے طور پر یہ بات کہى تھی_
لیکن حضرت موسى علیہ السلام نے بیدار اور سمجھ دارافراد کى طرح اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ دیکھا کہ گفتگو کو سنجیدگى پر محمول کریں اور سنجیدہ ہوکر اس کا جواب دیں اور چونکہ ذات پروردگار عالم انسانى افکار کى دسترس سے باہر ہے لہذا انھوں نے مناسب سمجھا کہ اس کے آثار کے ذریعے استدلال قائم کریں لہذا انھوں نے آیات آفاقى کا سہارا لیتے ہوئے فرمایا:''(خدا)آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا پر وردگار ہے اگر تم یقین کا راستہ اختیار کرو''_(2)
اتنے وسیع و عریض اور باعظمت آسمان و زمین اور کائنات کى رنگ برنگى مخلوق جس کے سامنے تو اور تیرے چاہنے اور ماننے والے ایک ذرہ ناچیز سے زیادہ کى حیثیت نہیں رکھتے، میرے پروردگار کى آفرینش
ہے اور ان اشیاء کا خالق ومدبر اور ناظم ہى عبادت کے لائق ہے نہ کہ تیرے جیسى کمزور اور ناچیز سى مخلوق_
لیکن عظیم آسمانى معلم کے اس قدر محکم بیان اورپختہ گفتگو کے بعد بھى فرعون خواب غفلت سے بیدار نہ ہوا اس نے انپے ٹھٹھے مذاق اور استہزاء کو جارى رکھا اور مغرور مستکبرین کے پرانے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے ''اپنے اطراف میں بیٹھنے والوں کى طرف منہ کرکے کہا: کیا سن نہیں رہے ہو(کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے)''_(3)
معلوم ہے کہ فرعون کے گردکون لوگ بیٹھے ہیں اسى قماش کے لوگ تو ہیں_صاحبان زوراور زرہیںیا پھرظالم اور جابر کے معاون _
وہاں پر فرعون کے اطراف میں پانچ سوآدمى موجود تھے،جن کا شمار فرعون کے خواص میں ہوتا تھا_
اس طرح کى گفتگو سے فرعون یہ چاہتا تھا کہ موسى علیہ السلام کى منطقى اور دلنشین گفتگو اس گروہ کے تاریک دلوں میں ذرہ بھر بھى اثر نہ کرے اور لوگوں کو یہ باور کروائے کہ انکى باتیں بے ڈھنگى اور ناقابل فہم ہیں_
مگر جناب موسى علیہ السلام نے اپنى منطقى اور جچى تلى گفتگو کو بغیر کسى خوف وخطر کے جارى رکھتے ہوئے فرمایا:''تمہارا بھى رب ہے اور تمھارے آباء واجداد کا رب ہے''_(4)
درحقیقت بات یہ ہے کہ جناب موسى علیہ السلام نے پہلے تو آفاقى آیات کے حوالے سے استدلال کیا اب یہاں پر''
آیات انفس''اور خود انسان کے اپنے وجود میں تخلیق خالق کے اسرار اور انسانى روح اور جسم میں خداوند عالم کى ربوبیت کے آثار کى طرف اشارہ کررہے ہیں تاکہ وہ عاقبت نا اندیش مغرور کم از کم اپنے بارے میں تو کچھ سوچ سکیںخود کو اور پھر اپنے خدا کو پہچان سکیں_
لیکن فرعون اپنى ہٹ دھرمى سے پھر بھى باز نہ آیا،اب استہزاء اور مسخرہ پن سے چند قدم آگے بڑھ جاتا ہے اور موسى علیہ السلام کو جنون اور دیوانگى کا الزام دیتا ہے چنانچہ اس نے کہا:''جو پیغمبر تمھارى طرف آیا ہے بالکل دیوانہ ہے''_(5)
وہى تہمت جو تاریخ کے ظالم اور جابر لوگ خدا کے بھیجے ہوئے مصلحین پر لگاتے رہتے تھے_
یہ بھى لائق توجہ ہے کہ یہ مغرور فریبى اس حد تک بھى روادارنہ تھا کہ کہے''ہمارا رسول''اور'' ہمارى طرف بھیجا ہوا ''بلکہ کہتا ہے''تمہارا پیغمبر''اور ''تمھارى طرف بھیجا ہوا'' کیونکہ''تمہارا پیغمبر''میں طنز اور استہزاء پایا جاتا ہے او رساتھ ہى اس میں غرور اور تکبر کا پہلو بھى نمایاں ہے کہ میں اس بات سے بالا تر ہوں کہ کوئی پیغمبر مجھے دعوت دینے کے لئے آئے اور موسى علیہ السلام پر جنون کى تہمت لگانے سے اس کا مقصد یہ تھا کہ جناب موسى علیہ السلام کے جاندار دلائل کو حاضرین کے اذہان میںبے اثر بنایا جائے_
لیکن یہ ناروا تہمت موسى علیہ السلا م کے بلند حوصلوں کو پست نہیںکر سکى اور انھوں نے تخلیقات عالم میں آثار الہى اور آفاق و انفس کے حوالے سے اپنے دلائل کو برابر جارى رکھا اور کہا:''وہ مشرق ومغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے اگر تم عقل وشعور سے کام لو''_(6)
اگر تمہارے پاس مصر نامى محدود سے علاقے میں چھوٹى سى ظاہرى حکومت ہے توکیا ہوا؟میرے پروردگار کى حقیقى حکومت تو مشرق و مغرب اور اس کے تمام درمیانى علاقے پر محیط ہے اور اس کے آثار ہر جگہ موجودات عالم کى پیشانى پر چمک رہے ہیں اصولى طور پر خود مشرق و مغرب میں آفتاب کا طلوع و غروب اور کائنات عالم پر حاکم نظام شمسى ہى اس کى عظمت کى نشانیاں ہیں، لیکن عیب خود تمہارے اندر ہے کہ تم عقل سے کام نہیں لیتے بلکہ تمہارے اندر سوچنے کى عادت ہى نہیں ہے_(7) درحقیقت یہاں پر حضرت موسى علیہ اسلام نے اپنى طرف جنون کى نسبت کا بڑے اچھے انداز میںجواب دیا ہے_ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دیوانہ میں نہیں ہوں بلکہ دیوانہ اور بے عقل وہ شخص ہے جو
اپنے پروردگار کے ان تمام آثار اور نشانات کو نہیں دیکھتا _
عالم وجود کے ہر درودیوار پر ذات پروردگار کے اس قدر عجیب وغریب نقوش موجود ہیں پھر بھى جو شخص ذات پروردگار کے بارے میں نہ سوچے اسے خود نقش دیوار ہوجانا چاہئے _
ان طاقتور دلائل نے فرعون کو سخت بوکھلادیا، اب اس نے اسى حربے کا سہارا لیا جس کا سہارا ہربے منطق اور طاقتور لیتا ہے اور جب وہ دلائل سے عاجزہوجاتاہے تو اسے آزمانے کى کوشش کرتاہے_
'' فرعون نے کہا: اگر تم نے میرے علاوہ کسى اور کو معبود بنایا تو تمہیں قیدیوں میں شامل کردوںگا''_(8) میں تمہارى اور کوئی بات نہیں سننا چاہتا میں تو صرف ایک ہى عظیم الہ اور معبوے کو جانتاہوں اور وہ میں خود ہوں اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کہتا ہے تو بس سمجھ لے کہ اس کى سزا یا تو موت ہے یا عمر قید جس میں زندگى ہى ختم ہوجائے_
درحقیقت فرعون چاہتا تھا کہ اس قسم کى تیزوتند گفتگو کرکے موسى علیہ السلام کو ہراساں کرے تاکہ وہ ڈرکر چپ ہوجائیں کیونکہ اگر بحث جارى رہے گى تو لوگ اس سے بیدار ہوں گے اور ظالم وجابر لوگوں کے لئے عوام کى بیدارى اور شعور سے بڑھ کر کوئی اور چیز خطر ناک نہیں ہوتى _


(1)سورہ شعراء آیت 23
(2)سورہ شعراء آیت 24

(3)سورہ شعراء آیت 35
(4)سورہ شعراء آیت 26
(5)سورہ شعراء آیت27
(6)سورہ شعراء آیت28
(7)سورہ شعراء آیت28

(8)سورہ شعراء آیت29

 

 

تمہارا ملک خطرے میں ہےفرعون سے معرک آرا مقابلہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma