قرآن میں بنى اسرائیل کى سرگزشت کے ایک اور اہم حصہ کى طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ واقعہ فرعونیوں پر ان کى فتحیابى کے بعد ہوا، اس واقعہ سے بت پرستى کى جانب ان کى توجہ ظاہر ہوتى ہے _
واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسى علیہ السلام فرعون کے جھگڑے سے نکل چکے تو ایک اور داخلى مصیبت شروع ہوگئی جو بنى اسرائیل کے جاہل ، سرکش اور فرعون اور فرعونیوں کے ساتھ جنگ کرنے سے بدر جہا سخت اور سنگین تر تھى اور ہر داخلى کشمکش کا یہى حال ہواکرتا ہے _قرآن میںفرمایاگیا ہے:'' ہم نے بنى اسرائیل کو دریا (نیل) کے اس پار لگا دیا :''
لیکن '' انہوں نے راستے میں ایک قوم کو دیکھا جو اپنے بتوں کے گرد خضوع اور انکسارى کے ساتھ اکٹھا تھے'' _(1)امت موسى علیہ السلام کے جاہل افراد یہ منظر دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً حضرت موسى کے پاس آئے اور '' وہ کہنے لگے اے موسى ہمارے واسطے بھى بالکل ویسا ہى معبود بنادو جیسا معبود ان لوگوں کا ہے''_(2)حضرت موسى علیہ السلام ان کى اس جاہلانہ اور احمقانہ فرمائشے سے بہت ناراض ہوئے ، آپ نے ان لوگوں سے کہا: ''تم لوگ جاہل وبے خبر قوم ہو''_(3)
بنى اسرائیل میں ناشکر گزار افراد کى کثرت تھی،باوجود یکہ انہوں نے حضرت موسى علیہ السلام سے اتنے معجزے دیکھے، قدرت کے اتنے انعامات ان پر ہوئے، ان کا دشمن فرعون نابود ہوا ابھى کچھ عرصہ بھى نہیں گذرا تھا، وہ غرق کردیا گیا اور وہ سلامتى کے ساتھ دریا کو عبور کرگئے لیکن انہوں نے ان تمام باتوں کو یکسر بھلادیا اور حضرت موسى علیہ السلام سے بت سازى کا سوال کربیٹھے_
(1)سورہ اعراف آیت 138
(2)سورہ اعراف آیت 138
(3)سورہ اعراف 138