حضرت داؤد علیہ السلام کى آزمائشے(1)

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
داؤد علیہ السلام کو پیش آمدہ واقعے کى حقیقتجناب داؤد علیہ السلام پر الہى نعمتیں

قرآن میں پہلے حضرت داؤد علیہ السلام کى خاص صفات بیان کى گئی تھیںاور ان پر اللہ تعالى کى عظیم نعمتوں کا ذکر تھا_اس کے بعد اب دادرسى اور قضاوت کے سلسلے میں حضرت داؤد(ع) کو پیش آنے والے ایک واقعے کا تذکرہ _
پہلے پیغمبر اسلام (ص) سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:''کیا داؤد کى دیوار محراب سے اوپر جانے والے شکایت کنندگان کا واقعہ تجھ تک پہنچا ہے''_(2)
بہر حال حضرت داؤد علیہ السلام کے ارد گرد اگر چہ بہت سے محافظین موجود تھے تا ہم دو آدمى ایک جھگڑے کے سلسلے میں عام راستے سے ہٹ کر محراب اور دیوار قصر سے اوپر آئے اور اچانک آپ(ع) کے سامنے آدھمکے_
جیسا کہ قرآن حکیم اس گفتگو کو جارى رکھتے ہوئے کہتا ہے:
''وہ اچانک داؤد(ع) کے سامنے آنکلے(بغیر کسى اطلاع کے اور بغیر کسى اجازت کے)لہذا ان پر نظر پڑى تو داؤد (ع) وحشت زدہ ہوئے اور گھبرائے_''(3)
کیونکر انھیں خیال ہوا کہ ہوسکتا ہے ان لوگوں کا ان کے بارے میں غلط ارادہ ہو''_
لیکن انھوں نے بہت جلد آپ (ع) کى پریشانى دور کرتے ہوئے کہا: ''ڈریں نہیں،ہم دونوں ایک شکایت لے کرآپ(ع) کے پاس آئے ہیں_ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتى کى ہے _(4)اور ہم آپ(ع) کے پاس داد رسى کے لئے آئے ہیں_
''اب آپ(ع) ہمارے بارے میں حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور ظلم روانہ رکھیں اور راہ راست کى طرف ہمارى ہدایت کریں_(5)
واضح رہے کہ اس مقام پر حضرت داؤد علیہ السلام کو زیادہ موقع نہ دیا_ ایک نے شکایت کرنے میں پہل کی،کہنے لگا:''یہ میرا بھائی ہے،اس کے پاس ننانوے بھیڑیں ہیں اور میرے پاس ایک سے زیادہ نہیں،لیکن یہ اصرار کرتا ہے کہ یہ ایک بھى مجھے دیدے،گفتگو میں یہ مجھ پر بھارى ہے اور مجھ سے زیادہ باتونى ہے''_(6)
حضرت داؤد علیہ السلام نے دوسرے فریق کى بات سنے بغیر شکایت کرنے والے سے کہا:''اپنى بھیڑوں میں تیرى بھیڑکا اضافہ کرنے کے لئے اس نے تقاضا کر کے ظلم روا رکھا ہے''_(7)
بہر حال یوں لگتا ہے کہ طرفین یہ بات سن کر مطمئن ہوگئے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے یہاں سے چلے گئے_لیکن داؤد علیہ السلام سوچ میں پڑگئے_ انھوں نے فیصلہ تو عدل کى بنیاد پر کیا تھا کیونکہ اگر فریق ثانى کو مدعى کا دعوى قبول نہ ہوتا تو یقینا وہ اعتراض کرتا ہے_اس کا سکوت اس امر کے لئے بہترین دلیل تھا کہ معاملہ وہى ہے جو شکایت کرنے والے نے پیش کیا ہے لیکن ان سب امور کے باوجود عدالتى اقدار کا تقاضا تھا کہ داؤد علیہ السلام اپنى بات میں جلدى نہ کرتے بلکہ فریق ثانى سے بھى شخصاً سوال کرتے اور پھر فیصلہ سناتے_ لہذا اس کام پر وہ خود پشیمان ہوئے ،اور داؤد(ع) نے گمان کیا کہ اس واقعے کے ذریعے ،ہم نے اس کاامتحان لیا ہے_
''اس نے استغفار کی،اپنے رب سے طلب بخشش کی،سجدے میں گرگیا اور توبہ کی''_(8)
بہر حال اللہ نے ان پر اپنا لطف و کرم کیا اور اس ترک اولى میں ان کى لغزش کو معاف کردیا_ جیسا کہ بعد کى ابحاث میں قرآن کہتا ہے:
''ہم نے اس کے عمل کو بخش دیا،اور وہ ہمارے نزدیک عالى مقام او رنیک مستقبل کا حامل ہے''_(9)


(1)قرآن میں حضرت داؤد(ع) کے فیصلہ کرنے کے بارے میں سادہ اور واضح گفتگو کى گئی ہے، اس ضمن میں جو تحریفات اور غلط تعبیرات کى گئی ہیں ان کے باعث لا شعورى طور پر مفسرین کے درمیان ایک بڑا نزاع پیدا ہوا ہے اس پر اس قدر شور و غوغا ہوا ہے کہ بعض مسلمان مفسرین بھى اس کى زدمیں آگئے ہیں اور انھوں نے اس عظیم نبى کے بارے میں غلط اور کہیں کہیں بہت ہى ناروا فیصلے کئے ہیں_ہم سب پہلے بغیر کسى تشریح کے آیات قرآنى کا متن پیش کرتے ہیں_تا کہ قارئین خالى ذہن کے ساتھ آیات کا مفہوم سمجھ سکیں_
(2)سورہ ص، آیت 21
(3)سورہ ص آیت22
(4)سورہ ص، آیت22
(5)سورہ ص، آیت22
(6)سورہ ص، آیت23
(7)سورہ ص، آیت24
(8)سورہ ص، آیت 24
(9)سورہ ص، آیت 25

 

 

داؤد علیہ السلام کو پیش آمدہ واقعے کى حقیقتجناب داؤد علیہ السلام پر الہى نعمتیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma