دو دوست یا دوبرادر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
مستضعفین کا جوابہم نے انھیں اس طرح منتشر کیا کہ ضر ب المثل بن گئے

قرآن میں دو دوست یا دو بھائی کى داستان مثال کے طور پر بیان کى گئی ہے_ ان میں سے ہر ایک مستکبرین اور، مستضعفین کا ایک نمونہ تھا_ان کى طرز فکر اور ان کى گفتار و کردار ان دونوں گروہوں کے موقف کا ترجمان تھے_ پہلے فرمایا گیا ہے:''اے رسولان سے دو شخصوں کى مثال بیان کرو کہ جن میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دوباغ دیئے تھے_جو طرح طرح کے انگور تھے_ان کے گرد اگرد کھجور کے درخت آسمان سے باتیں کررہے تھے_ان دونوں باغوں کے درمیان ہرى بھرى کھیتى تھی''_(1)
ایسے باغ اور کھیتیاں جن میں ہر چیز خوب تھی_ انگور بھى تھے،کھجوریں بھى تھیں،گندم اور دوسرا اناج بھى تھا_خود کفیل کھیتیاں تھیں_ یہ دونوں باغ پیداوار کے لحاظ سے بھرے پڑے تھے_درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے اور کھیتیوں کے پودے خوب خوشہ دار تھے_ان دونوں باغوں میں کسى چیز کى کمى نہ تھی_(2)
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پانى جو ہر چیز کے لئے مایہ حیات ہے،خصوصاً باغات و زراعت کے لئے،انہیں فراہم تھا:'' کیونکہ دونوں باغوں کے درمیان ہم نے ایک نہر جارى کى تھی''_(3)
''اس طرح سے ان باغات اور کھیتیوں کے مالک کو خوب پیداروار ملتى تھی''_(4)
دنیا کا مقصد پورا ہورہا ہو اور تو کم ظرف اور بے وقعت انسان اپنى دنیاوى مراد پاکر غرورو تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے اور سرکشى کرنے لگتا ہے_ پہلے وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتا ہے_ باغات کے اس مالک نے بھى اپنے دوست سے بات کرتے ہوئے کہا:''میں دولت اور سرمائے کے لحاظ سے تجھ سے برترہوں،میرى آبرو، عزت اور حیثیت تجھ سے زیادہ ہے''_(5)
اور افرادى قوت بھى میرے پاس بہت زیادہ ہے_ مال و دولت اور اثر و رسوخ میرا زیادہ ہے_ معاشرے میں میرى حیثیت زیادہ ہے_ تو میرے مقابلے میں کیا ہے اور تو کس کھاتے میں ہے؟
آہستہ آہستہ اس کے خیالات بڑھتے چلے گئے اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ دنیا کو جاوداں،مال و دولت کو ابدى اور مقام وحشمت کو دائمى خیال کرنے لگا_''وہ مغرور تھا حالانکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کررہا تھا_ایسے میں اپنے باغ میں داخل ہوا اس نے ایک نگاہ سر سبز درختوں پر ڈالى جن کى شاخیں پھلوں کے بوجھ سے خم ہوگئی تھیں_اس نے اناج کى ڈالیوں کو دیکھا،نہر کے آب رواں کى لہروں پر نظر کى کہ جو چلتے چلتے درختوں کو سیراب کررہا تھا_ ایسے میں وہ سب کچھ بھول گیا اور کہنے لگا''میرا خیال نہیں ہے کہ میرا باغ بھى کبھى اجڑے گا''_(6)
پھر اس نے اس سے بھى آگے کى بات کی_اس جہان کا دائمى ہونا چونکہ عقیدہ قیامت کے منافى ہے لہذا وہ انکار قیامت کا سوچنے لگا_اس نے کہا:میرا ہر گز نہیں خیال کہ کوئی قیامت بھى ہے_(7)
پھر مزید کہنے لگا:فرض کیاجائے کہ قیامت ہو بھی'' اور میں اپنیس حیثیت اور مقام کے ساتھ اپنے رب کے پاس جائوں بھى تو یقینا اس سے بہتر جگہ پائوں گا''_(8)
وہ ان خام خیالوں میں غرق تھا اور ایک کے بعد دوسر ى فضول بات کرتا جاتا تھا _
 


(1)سورہ کہف آیت 32
(2)سورہ کہف آیت 33
(3)سورہ کہف آیت33
(4)سورہ کہف آیت34
(5)سورہ کہف آیت34
(6)سورہ کہف آیت35
(7)سورہ کہف آیت36
(8)سورہ کہف آیت36

 


مستضعفین کا جوابہم نے انھیں اس طرح منتشر کیا کہ ضر ب المثل بن گئے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma