انسانوں کو جلا دینے والى بھٹیاں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینابر صیصائے عابد

قران سورہ بروج میں فرماتا ہے :''موت اور عذاب ہو تشدد کرنے والوں پر _''
''وہى خندقیں جو اگ اور لکڑیوں سے پُر تھیں جن میںسے بڑے بڑے شعلے نکل رہے تھے ''_
''جس وقت وہ اس اگ کى خندق کے پاس بیٹھے ہوئے تھے (سرد مہریسے)
''اور جو کچھ وہ مومنین کے بارے میں انجام دے رہے تھے اسے دیکھ رہے تھے _''(1)
''اخدود''عظیم گڑھے او ر خندق کے معنى میں ہے اور یہاں بڑى بڑى خندقیں مراد ہیں جو اگ سے پر تھیں تاکہ تشدد کر نے والے اس میں مومنین کو پھینک کر جلائیں _
یہ واقعہ کس قوم سے متعلق ہے اور کس وقت معرض وجود میں ایا اور کیا یہ ایک خاص معین و مقرر واقعہ تھا ،یا دنیا کے مختلف علاقوں کے اسى قسم کے متعدد واقعات کى طرف اشارہ ہے _
مفسرین و مورخین کے درمیان اس موضوع پرا ختلاف ہے سب سے زیادہ مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ سر زمین یمن کے'' قبیلہ حمیر'' کے ''ذونواس'' نامى بادشاہ کے دور کا ہے _
تفصیل اس کى یہ ہے کہ ذونواس ،جوحمیر نامى قبیلہ سے متعلق تھا یہودى ہوگیا اس کے ساتھ ہیس کا پورا قبیلہ بھى یہودى ہو گیا ،اس نے اپنا نام یوسف رکھا ،ایک عرصہ تک یہى صورت حال رہى ،ایک وقت ایسا ایا کہ کسى نے اسے خبردى کہ سر زمین نجران (یمن کا شمالى حصہ )میں ابھى تک ایک گروہ نصرانى مذہب کاپر قائم ہے ذونواس کے ہم مسلک لوگوں نے اسے اس بات پر ابھارا کہ اہل نجران کو دین یہود کے قبول کرنے پر مجبور کرے _
وہ نجران کى طرف روانہ ہو گیا،وہاں پہنچ کر اس نے وہاں کے رہنے والوں کو اکٹھا کیا اور دین یہود ان کے سامنے پیش کیا اور ان سے اصرار کیا کہ وہ اس دین کو قبول کریں ،لیکن انھوں نے انکار کیا اور شہادت قبول کرنے پر تیار ہو گئے ،انھوںنے اپنے دین کو خیر باد نہ کہا ،ذونواس اورا سکے ساتھیوں نے ایک گروہ کر پکڑ کر اسے اگ میں زندہ جلا یا اور ایک گروہ کو تلوار کے گھاٹ اتارا ،اس طرح اگ میں جلنے والوں اور مقتولین کى تعداد بیس ہزار تک پہنچ گئی _
بعض مفسرین نے یہ بھى لکھا ہے کہ اس سلسلہ دار و گیر سے بچ کر نصارى بنى نجران کا ایک ادمى قیصر روم کے دربار میں جاپہنچا ،اس نے وہاں ذوانواس کى شکایت کى اور اس سے مدد طلب کى ،قیصر روم نے کہا تمہاریسر زمین مجھ سے دور ہے ،میںبادشاہ حبشہ کو خط لکھتا ہوں جو عیسائی ہے اور تمہارا ہمسایہ ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ وہ تمہارى مدد کرے _
پھر اس نے خط لکھا اور حبشہ کے بادشاہ سے نصارى نجران کے عیسائیوں کے خون کا انتقام لینے کى خواہش کى ،وہ نجرانى شخص بادشاہ حبشہ نجاشى کے پاس گیا ،نجاشیس سے یہ تمام ماجرا سن کر بہت متاثر ہو ا اور سر زمین نجران میں شعلہ دین مسیح کے خاموش ہوجانے کا اسے بہت افسوس ہوا ،اس نے ذونواس سے شہیدوں کے خون کا بدلہ لینے کا مصمم ارادہ کر لیا _
اس مقصد کے پیش نظر حبشہ کى فوج یمن کى طرف روانہ ہوئی اور ایک گھمسان جنگ کے نتیجے میں اس نے ذونواس کو شکست فاش دى اور ان میں سے بہت سے افراد کو قتل کیا ،جلد ہى نجران کى حکومت نجاشى کے قبضہ میں اگئی اور نجران حبشہ کا ایک صوبہ بن گیا _
بعض مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ اس خندق کاطول چالیس ذراع (ہاتھ)تھا اور اس کا عرض بارہ ذراع تھا ،(2)
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ سات گڑھے تھے جن میں سے ہر ایک کى وسعت اتنى ہى تھى جتنى اوپر بیان ہوئی _(3)
جو کچھ ہم نے تحریر کیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ تشد دکرنے والے بے رحم افراد اخر کار عذاب الہى میں گرفتار ہوئے اور ان سے اس خون ناحق کا انتقام دنیا ہى میں لیاگیا اور عاقبت کاعذاب جہنم ابھى ان کے انتظار میں ہے _
انسانوں کوجلانے والى یہ بھٹیاں جو یہودیوں کے ہاتھ سے معرض وجود میں ائیں ،احتمال اس امر کا ہے کہ پورى انسانى تاریخ میں یہ پہلى ادم سوز بھٹیاں تھیں لیکن تعجب کى بات یہ ہے کہ اسى قسم کى قساوت اور بے رحمى کاخود یہودى بھى شکار ہوئے جیسا کہ ہم جانتے ہیںکہ ان میں سے بہت زیادہ لوگ'' ہٹلر ''کے حکم سے ادم سوز بھٹیوں میں جلائے گئے اور اس جہان میں بھى عذاب حریق کا شکار ہو ئے _
علاوہ ازیں'' ذونواس یہودى ''جو اس منحوس اقدام کا بانى تھا ،وہ بھى بد اعمالى کے انجام سے نہ بچ سکا، جو کچھ اصحاب اخدود کے بارے میں درج کیا گیا ہے یہ مشہور و معروف نظریات کے مطابق ہے _(4)
 


(1)سورہ بروج ایت 4تا 7

(2)ایک ذراع تقریبا ادھا میٹر ہے اور بعض اوقات گز کے معنى میں استعمال ہو تا ہے جو تقریبا ایک میٹر ہے )_
(3)مندرجہ بالا واقعہ تاریخ و تفسیر کى بہت سى کتابوں میں درج ہے ،منجملہ دیگر کتب کے عظیم مفسر طبرسى نے مجمع البیان میں ،ابو الفتاح رازى نے اپنى تفسیر میں ،فخر رازى نے اپنے تفسیر کبیر میں ،الوسى نے روح المعانى میں اور قرطبى نے اپنى تفسیر میں اسى طرح ہشام نے اپنیسیرت (جلد اول ص35) میں اور ایک دوسرى جماعت نے اپنى کتب میں اس واقعہ کو تحریر کیا ہے
(4)لیکن اس ضمن میں کچھ اور روایات بھى موجود ہیں جو یہ بتاتى ہیں کہ اصحاب اخدود صرف یمن میں ذونواس  ہى کے زمانے میں نہیں تھے _
بعض مفسرین نے تو ان کے بارے میں دس قول نقل کئے ہیں _
ایک روایت حضرت امیر المو منین على علیہ السلام سے منقول ہے ،اپ نے فرمایا ہے وہ ا ہل کتاب مجوسى تھے جو اپنى کتاب پر عمل کرتے تھے ،ان کے بادشاہوں میں سے ایک نے اپنى بہن سے مباشرت کى اورخو اہش ظاہر کى کہ بہن سے شادى کو جائز قرار دے ،لیکن لوگوں نے قبول نہیں کیا،بادشاہ نے ایسے بہت سے مومنین کو جنھوں نے یہ بات قبول نہیں کى تھى ،جلتى ہوئی اگ کى خندق میں ڈلوا دیا _''
یہ فارس کے اصحاب الاخدود کے بارے میں ہے ،شام کے اصحاب الاخدود کے بارے میں بھى علماء نے لکھا ہے کہ وہاں مومنین رہتے تھے اور'' انتیا خوس'' نے انھیں خندق میں جلوایا تھا_
بعض مفسرین نے اس وقعہ کو بنیسرائیل کے مشہور پیغمبر حضرت دانیال علیہ السلام کے اصحاب و انصار کے ساتھ مربوط سمجھا ہے جس کى طرف توریت کى کتاب دانیال میں اشارہ ہوا ہے اور ثعلبى نے بھى اخدود فارسى کو انہى پر منطبق کیا ہے _
کچھ بعید نہیں کہ اصحاب اخدود میں یہ سب کچھ اور ان جیسے دوسرے لوگ شامل ہوں اگر چہ اس کا مشہور معروف، مصداق سر زمین یمن کا ذونواس ہى ہے
 

 


بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینابر صیصائے عابد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma