ایک بے نظیر معجزہ(اس گھر کا ایک مالک ہے)

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
قصص قرآن
ایک مسلم تاریخى روئیدادمیں اونٹوں کا مالک ہوں

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجیدنے اس مفصل و طولانى داستان کو چند مختصر اور چبھنے والے انتہائی فصیح و بلیغ جملوں میںبیان کردیا ہے_ اور حقیقتاً ایسے نکات بیان کئے ہیں جو قرآنى اہداف،یعنى مغرور سرکشوں کو کو بیدار کرنے او رخدا کى عظیم قدرت کے مقابلہ میں انسان کى کمزورى دکھانے میں مدد دیتے ہیں_
یہ ماجرا اس بات کى نشانى دہى کرتا ہے کہ معجزات و خوارق عادات،بعض لوگوں کے خیال کے برخلاف،لازمى نہیں ہے کہ پیغمبر یا امام ہى کے ہاتھ پر ظاہر ہوں _بلکہ جن حالات میں خدا چاہے اور ضروریسمجھے انجام پاجاتے ہیں_ مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا کى عظمت اور اس کے دین کى حقانیت سے آشنا ہوجائیں_
یہ عجیب و غریب اعجاز آمیز اور عذاب دوسریسرکش اقوام کے عذاب کے ساتھ ایک واضح فرق رکھتا ہے کیونکہ طوفان نوح علیہ السلام کا عذاب،اور قوم لوط علیہ السلام کا زلزلہ اور سنگ باری،قوم عاد کى تیز آندھى اور قوم ثمود کا صاعقہ طبعى حوادث کا ایک سلسلہ تھے،کہ جن کا صرف ان خاص حالات میں وقوع معجزہ تھا_
لیکن لشکر ابرہہ کى نابودى کى داستان ان سنگریزوں کے ذریعے جو چھوٹے چھوٹے پرندوں کى چونچ اور پنجوں سے گرتے تھے_کوئی ایسى چیز نہیں تھى جو طبعى حوادث سے مشابہ ہو_
ان چھوٹے چھوٹے پرندوں کا اٹھنا،اسى خاص لشکر کى طرف آنا،اپنے ساتھ کنکریوں کا لانا،خاص طور سے انہیں کو نشانہ بنانا اور ان چھوٹى چھوٹى کنکریوں سے ایک عظیم لشکر کے افراد کے اجسام کا ریزہ ریزہ ہوجانا،یہ سب کے سب خارق عادت امور ہیں،لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ خدا کى قدرت کے سامنے بہت ہى معمولى چیز ہے_
وہى خدا جس نے انہیں سنگ ریزوں کے اندر ایٹم کى قدرت پیدا کى ہے،کہ اگر وہ آزاد ہوجائےں تو ایک عظیم تباہى پھیلادے_اس کے لئے یہ بات آسان ہے کہ ان کے اندر ایسى خاصیت پیدا کردے کہ ابرہہ کے لشکر کے جسموں کو ''عصف ما کول''''(کھائے ہوئے بھوسے کى مانند)بنادے_''
ہمیں بعض مصرى مفسرین کى طرح اس حادثہ کى توجیہہ کرنے کى کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ان کنکریوں میں وبا یا چیچک کے جراثیم تھے_اور اگربعض روایات میں یہ آیا ہے کہ صدمہ زدہ لوگوں کے بدنوں سے چیچک میں مبتلا افراد کى طرح خون اور پیپ آتى تھی،تو یہ اس بات کى دلیل نہیں ہے کہ وہ حتمى طور پر چیچک میں مبتلا تھے_اسى طرح سے ہمیں اس بات کى بھى ضرورت نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ یہ سنگ ریزے پسے ہوئے ایٹم تھے جن کے درمیان کى ہوا ختم ہوگئی تھی، اور وہ حد سے زیادہ سخت تھے،اس طرح سے کہ وہ جہاں بھى گرتے تھے سوراخ کردیتے تھے_
یہ سب کیسب ایسى توجیہات ہیں جو اس حادثہ کو طبعى بنانے کے لئے ذکر ہوئی ہیں اور ہم اس کى ضرورت نہیں سمجھتے_ ہم تو اتنا ہى جانتے ہیں کہ ان سنگ ریزوں میں ایسى عجیب و غریب خاصیت تھى جو جسموں کو ریزہ ریزہ کردیتى تھی_ اس سے زیادہ اور کوئی اطلاع ہمارے پاس نہیں ہے_ بہر حال خدا کى قدرت کے مقابلہ میں کوئی کام بھى مشکل نہیں ہوتا_
 

 

ایک مسلم تاریخى روئیدادمیں اونٹوں کا مالک ہوں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma