٩۔ عصر پیغمبر (صلی الله علیه و آله وسلم) یا اس کے بعد بعض صحابہ پر حدوں کا جاری ہونا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
کتب صحاح یا اہلسنت کی دیگر کتابوں میں ایسے موارد مشاہدہ ہوتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے دور میں یا ان کے بعد بعض صحابہ پر گناہ کبیرہ کے ارتکاب کی وجہ سے حدیں جاری ہوئیں ہیں ۔
کیا پھر بھی عدالت صحابہ کی تکرار کرنا صحیح ہے؟ یا ان سے کسی قسم کی کوئی خطا سرزد نہیں ہوسکتی ؟
یہ کیسی عدالت ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے گناہ کبیرہ کے ارتکاب کی وجہ سے حد شرعی جاری ہو اور پھر بھی وہ عدالت اپنی جگہ قائم رہے ؟
مندرجہ ذیل موارد کو ملاحظہ کریں:
١۔ صحابی پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم) نعیمان نے جب شراب پی تو پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم) نے نعال(جوتوں) سے سزا دینے کا حکم دیا ۔
٢۔جب قبیلہ بنی اسلم کے ایک شخص نے زنائے محصنہ کیا تو رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)نے اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔
٣۔ داستان افک میں آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)نے بعض لوگوں پر حد قذف جاری کرنے کا حکم دیا ۔
٤۔ رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے بعد عبد الرحمان بن عمر اور عقبہ بن حارث نے شراب خواری کی تو عمروبن عاص ،امیر مصر نے ان پر حد شرعی جاری کی ، اس کے بعد عمر نے اپنے بیٹے کو بلایا اور اس پردوبارہ حد جاری کی ۔
٥۔ ولید بن عقبہ کی داستان مشہور ہے کہ جس نے شراب خواری کے بعد نماز صبح کو دو رکعت کے بدلے چار رکعت پڑھادیا تو اسے مدینہ بلایا گیا اور اس پر حد جاری کی گئی ۔
مذکورہ موارد کے علاوہ تاریخ میں بے شمار موارد او ربھی ہیں جنہیں ہم مصلحت کی خاطر ذکر کرنے سے پرہیز کرتے ہیں ، کیا ان موارد کے باوجود ہم اپنی آنکھوں اور کانوں کو حقیقت کے مشاہدے سے بند کرلیں اور کہیں کہ تمام صحابہ عادل تھے ؟!
1)صحیح بخارى ، جلد 8 ص 13، حدیث نمبر 6775 ، کتاب الحدّ_
2) صحیح بخارى ، جلد 8 ص 22 ، حدیث 6820_
3) المعجم الکبیر، جلد 23 ص 128 و کتب دیگر_
4) السنن الکبرى ، جلد 8 ص 312 اور بہت سى کتب _
5) صحیح مسلم، جلد 5 ، ص 126 حدیث نمبر 1707_
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_عدم تحریف پر عقلى اور نقلى دلیلیں :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma