روایتوں کی قسمیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
شیعوں کا جواب
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
الف)یہ وہ روایتیں ہیں جو عموماً وضو میں جوتے پر مسح کرنے کو منع کرتی ہیں :
١۔ جناب شیخ طوسی ابو الورد سے نقل کرتے ہیں ، وہ کہتاہے : میں نے ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا : ابو ظبیان نے نقل کیا ہے کہ میں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ انھوں نے پانی کو پھینک دیا اور جوتے پر مسح کیا ، امام نے فرمایا: ابوظبیان جھوٹا ہے: اما بلغکم قول علی فیکم: سبق الکتاب الخفین ؟ فقلت : ھل فیھما رخصة ؟ فقال: لا الا من عدو تقیة او ثلج تخاف علی رجیلک
کیا تم تک علی کا یہ قول نہیں پہنچا ہے کہ آپ نے فرمایا: کتاب خدا جوتو ں پر مسح کرنے میں سابق ہے ، میں نے عرض کیا : کیا جوتوں پر مسح کرنے کی کوئی صورت ہے ؟ فرمایا: نہیں ! مگر یہ کہ تم دشمنوں کے درمیان رہو اور تقیہ کرنا چاہو یا زمین پر برف پڑی ہو اور تمہیں اپنے پیروں کے متعلق ڈر ہو ۔
اس حدیث کے نکات درج ذیل ہیں :
اولاً:جب کہ اہل سنت کی روایتوں میں یہ مشہور ہے کہ امام علی علیہ السلام جوتو ں پرمسح کرنے کے مخالف تھے تو پھر ابوظبیان اور اس کے جیسوں نے کس طرح اس روایت کو نقل کیا ہے اور حضرت کی طرف ایک جھوٹی نسبت دینے کی کوشش کی ہے ، کیا اس بہتان کے پس پشت کو ئی سازش ہے ؟ہم اس سوال کا جواب بعد میں دیں گے ۔
ثانیاً: امام علیہ السلام نے معیار کو بیان کرتے ہوئے فرمایاہے : قرآن مجید ہر ایک پرسابق ہے اور کسی چیز نے بھی قرآن پر سبقت نہیں لی ہے لہذا اگر کوئی روایت، قرآن کے برخلاف نظر آئے تو اس کی توجیہ کرنی چاہئے ،مخصوصا ًسورہ مائدہ کی آیہ وضو کے متعلق جو ہرگز منسوخ نہیں ہوئی ہے ۔
ثالثاً: امام محمد باقر علیہ السلام نے بھی فرمایاہے کہ اگرجوتوں پر مسح کرنے کے متعلق کوئی روایت وارد ہوئی ہو تو پھر اسے وقت ضرورت جیسے شدید ٹھنڈک پر حمل کیا جائے گا کہ جب پیروں کی نقصان پہنچنے کا ڈر ہو۔
٢۔ مرحوم صدوق کتاب من لایحضرہ الفقیہ میں امام علی علیہ السلام سے ایک روایت نقل کرتے ہیں : انا اہل بیت ... لا نمسح علی الخفین فمن کان من شیعتنا فلیقتدبنا ولیستن بسنتنا ہم وہ خاندان ہیں جو جوتوں پر مسح نہیں کرتے پس جو بھی ہمارا پیروکار ہے اسے چاہئے کہ ہماری پیروی کرتے ہوئے ہماری سنت پر عمل کرے ۔
٣۔ ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک عجیب تعبیر وارد ہوئی جس میں آپ فرماتے ہیں : من مسح علی الخفین فقد خالف اللہ ورسولہ وکتابہ ووضوئہ لم یتم وصلاتہ غیر مجزیة
جس نے بھی جوتوں پر مسح کیا اس نے خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے اوراس کا وضو ناقص ہے اور اس کی نماز بھی مجزی نہیں ہے ۔
جوتوں پر مسح نہ کرنے کے متعلق جو روایت حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اسی کے ضمن میں فخر رازی کاجملہ ملاحظہ کریں :
نماز کے دوران بسم اللہ کو آہستہ یا بلند آواز سے پڑھنے کے مسئلہ میں بعض آہستہ پڑھنے کو واجب سمجھتے ہیں لیکن امیر المومنین علی علیہ السلام بلند آواز سے پڑھنے کو واجب جانتے ہیں ، اسی ضمن میں فرماتے ہیں : من اتخذ علیا اماما لدینہ فقد استمسک بالعروة الوثقی فی دینہ و نفسہ جس نے بھی اپنے دین میں علی کو امام بنایا ہے ، اس نے اپنے دین اور نفس کی حفاظت کے لئے ایک مضبوط عروة الوثقی سے تمسک کیا ہے ۔
ب) وہ روایتیں جو جوتوں پر مسح کرنے کو جائز قرار دیتی ہیں ، دو طرح کی ہیں :
الف: وہ حدیثیں جو کسی بھی قید وشرط کے بغیر جوتوں پر مسح کرنے کو جائز قرار دیتی ہیں
جیسے کہ سعد ابن ابی وقاص کی حدیث مرفوعہ جس میں آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)سے نقل ہوا ہے: انہ لاباس بالوضوء علی الخفین جوتوں پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
بیہقی کی نقل کے مطابق ایک دوسری حدیث میں حذیفہ سے صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں وارد ہواہے : مشی رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)الی سباطة قوم فبال قائما ثم دعا بماء فجئتہ بماء فتوضا و مسح علی خفیہ ؛ نہایت شرمندگی کے ساتھ ہم اس حدیث کے ترجمہ کے لئے مجبور ہیں : رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کا گذر کسی قوم کے ایک گھورے سے ہوا ، آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)نے وہاں ٹھہر کراستنجا کیا اور پانی طلب کیا ، میں نے پانی حاضر کیا، آپ(صلی الله علیه و آله وسلم)نے وضو کیا اور جوتوں پر مسح کیا !! .
اس حدیث کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ اسے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی قداست کو ختم کرنے کے لئے گھڑا گیا ہے اور پھر کسی طرح یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ( ناقلوں کی سادگی سے ) درج ہوگئی ہے ۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ جو کوئی بھی ایک معمولی شخصیت کا مالک ہو ، کیا وہ ایسی کوئی حرکت کرسکتا ہے؟ جس کے ایسے آثار ظاہر ہوسکتے ہیں جنہیں ہم یہاں پر ذکر نہیں کرسکتے ۔
بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ایسی ہی روایتیں صحاح میں بھری پڑی ہیں اور آج بھی ان کے ذریعہ استدلال کیا جاتا ہے بہرحال ان روایتوں میں جوتوں پر مسح کرنے کے متعلق کوئی شرط بیان نہیں ہوئی ہے .
ب: یہ وہ روایتیں جو ضرورت کے وقت جوتوں پر مسح کرنے کو جائز قرار دیتی ہیں جیسے :
ایک روایت میں مقدام بن شریح نے عائشہ سے نقل کیا ہے ،جب میں نے جوتوں پر مسح کرنے کے متعلق عائشہ سے سوال کیا تو انھوں نے کہا : علی کے پاس جاؤ کہ وہ سفر میں رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے ساتھ رہا کرتے تھے ، میں حضرت علی کے پاس آیا اور یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
کنا اذا سافرنا مع رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)یامرنا بالمسح علی خفافنا
ہم جب بھی رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے ساتھ مسافرت پر جایا کرتے تھے تو آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم جوتوں پر مسح کریں ۔
اس تعبیر سے پوری طرح یہ مسئلہ واضح ہے کہ جوتوں پر مسح کرنا ضروری موارد کے لئے تھا اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ہمیں سفر میں اسی طرح مسح کرنے کا حکم دیا کرتے تھے ۔
اسی طرح کی دوسری روایتیں جو اہلسنت کی معتبر کتابوں میں وارد ہوئی ہیں ، اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں :
اولاً: علم اصول میں معروف قاعدہ (مطلق و مقید کے درمیان جمع کرنے کا قاعدہ یہ ہیکہ مطلق کو مقید کردیاجاتا ہے) کے مطابق وہ روایتیں جو بطور مطلق جو توں پر مسح کرنے کی اجازت دیتی ہیں ، انہیں ضروری مواقع پر حمل کیا جائے ، جیسے سفر ، جنگ، یا اسی طرح دوسرے مواقع جہاں جوتوں کا اتارنا عموما سخت ہوتا ہے ، اس کے علاوہ سنن بیہقی میں ایک مخصوص باب صرف اس عنوان کے تحت لایا گیا ہے کہ کتنی مدت میں جوتوں پر مسح جائز ہے ، وہاں پر متعدد روایتوں کے ذریعہ سفر میں تین دن اور حضر میں ایک دن جوتوں پر مسح کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے ۔
کیا ان روایتوں کی کثرت کے ذریعہ یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ جوتوں پر مسح کرنے والی روایتیں ضروری مواقع سے مخصوص ہیں اور عادی حالت میں جوتوں پر مسح کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے ۔
اوریہ کہ بعض لوگوں نے جوتوں پر مسح کرنے کے متعلق عسر و حرج کے ذریعہ توجیہ کی ہے تو یہ قابل قبول نہیں ہے اس لئے کہ آج کے جوتوں کو اتارنے میں کیسا عسر وحرج ہوسکتاہے؟ ۔
ثانیاً: شیعوں اور سنیوں کی مشہور کتابوں میں حضرت علی علیہ السلام سے وارد ہونے والی متعدد روایتیں کہ سورہ مائدہ کی چھٹی آیت جوتوں پر مسح کرنے کے بعد نازل ہوئی ہیں ۔
اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اگر جوتوں پر مسح کرنے کا کوئی جواز تھا تو وہ اس آیت کے نزول سے پہلے تک تھا اوراس آیت کے نزول کے بعد حتی سفر اور جنگ کے دوران بھی جوتوں پر مسح کرنے کا جواز باقی نہیں بچتا اسلئے کہ جوتوں کے نہ اتارسکنے کی صورت میں تیمم کیا جاسکتا ہے اور اس امر پر اسی آیت کے بعد والے جملات گواہ ہیں ۔
ثالثاً: اگر بعض روایتوں کے مطابق آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)حضر میں بھی جوتوں پر مسح کرلیا کرتے تھے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کے جوتوں کے اوپری حصہ میں شکاف تھا کہ جہاں آسانی کے ساتھ مسح کیا جاسکتا تھا ۔
جناب مرحوم صدوق اپنی مشہور کتاب من لایحضرہ الفقیہ میں نقل کرتے ہیں کہ (بادشاہ حبشہ)نجاشی نے آپ(صلی الله علیه و آله وسلم)کوایک ایسا جوتا ہدیہ میں دیا تھا جس کے درمیان شکاف تھا اور آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) مانع نہ ہونے کی وجہ سے اسی شکاف کے درمیان مسح کرلیا کرتے تھے ، یہیں پر بعض لوگوں کو شبہ ہوگیا تھا کہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)جوتوں پر مسح کیا کرتے تھے ۔
مشہور محدث بیہقی اپنی کتاب السنن الکبری میں ایک باب بعنوان باب الخف الذی مسح علیہ رسول اللہ ذکر کرتے ہیں ،جن میں ایسی روایتیں ذکر کرتے ہیں کہ جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہاجرین اور انصار کے بیشتر جوتے ایسے تھے کہ جن میں شکاف ہوا کرتا تھا ۔
وکانت کذلک خفاف المھاجرین والانصار مخرقة مشققة ۔ لہذا اس بات کا زیادہ احتمال ہے کہ وہ لوگ اپنے جوتے اتارے بغیر اپنے پیروں پر مسح کیا کرتے تھے ، اس مسئلہ میں عجیب بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے جوتوں پر مسح کرنے والی روایتیں نقل کی ہیں ، ان کا تعلق ان لوگوں میں سے ہے جو کبھی کبھی پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم)کی زیارت کیا کرتے تھے اور جو ہمیشہ آنحضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)کی خدمت میں رہا کرتا تھا، اس نے ہمیشہ ایسی روایتوں کی تکذیب کی ہے اور پیروں پر مسح کرنے کو واجب سمجھا ہے ۔
اس سے بھی عجیب بات تو ہے کہ ام المومنین عائشہ سے نقل ہوا ہے : لئن تقطع قدمای احب الی من ان امسح علی الخفین اگر میرے دونوں پیر کاٹ دئے جائیں تو مجھے جوتوں پر مسح کرنے سے زیادہ گوارا ہے .
1)تہذیب الاحکام، جلد 1، حدیث 1092_
2) من لا یحضرہ الفقیہ ، جلد 4، ص 415_
3) وسائل الشیعہ ، جلد 1، ص 279_
4)تفسیر کبیر فخر رازى جلد1، ص 207_
5)السنن الکبرى ، جلد 1، ص 269_
6) ایضاً ، ص 270_
7) ایضاً ، ص 272_
8) السنن الکبرى ، جلد 1 ، ص 275، 276_
9) من لا یحضرہ الفقیہ، جلد 1، ص 48_
10) السنن الکبرى ، جلد 1، ص 283_
11) مبسوط سرخسى ، جلد 1، ص 98_
نعوذ بالله من ہذہ الاکاذیب_
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma