1) دجّال

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
فلسفه انتظار
2) سفیانی کا ظھور ظلم و فساد کا رواج

جب کبھی دجال کا تذکرہ ھوتا ھے، ذھن پُرانے تصورات کی بنا پر فوراً ایک خاص شخص کی طرف متوجہ ھوجاتا ھے جس کے صرف ایک آنکھ ھے جس کا جسم بھی افسانوی ھے اور سواری بھی۔ جو حضرت مھدی (عج) کے عالمی انقلاب سے پہلے ظاھو
ھوگا۔
لیکن دجال کے لغوی معنی 14 اور احادیث سے یہ استفادہ ھوتا ھے کہ دجال کسی خاص فرد سے مخصوص نہیں ھے۔ بلکہ یہ ایک عنوان ھے جو ھر دھوکہ باز اور حیلہ گر… پر منطبق ھوتا ھے۔ اور ھر اس شخص پر منطبق ھوتا ھے جو عالمی انقلاب کی راہ میں رکاوٹیں ایجاد کرتا ھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک مشھور حدیث ھے:
انہ لہ یکن نبی بعد نوح الا انذر قومہ الدجال وانی انذر کموہ۔ 1
جناب نوح (ع) کے بعد ھر نبی نے اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرایا ھے میں بھی تمھیں اس سے ھوشیار کرتا ھوں۔
یہ بات مسلم ھے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قوم کو کسی ایسے فتنے سے نہیں ڈراتے تھے جو ھزاروں سال بعد آخری زمانہ میں رونما ھونے والا ھو۔
اسی حدیث کا یہ آخری جملہ خاص توجہ کا طالب ھے کہ:
فوصفہ لنا رسول اللہ فقال لعلہ سیدرکہ بعض من رأنی او سمع کلامی
رسول خدا (ص) نے ھمارے لئے اس کے صفات بیان فرمائے اور فرمایا کہ ھوسکتا ھے وہ لوگ اس سے دوچار ھوں جنھوں نے مجھے دیکھا ھے یا میری بات سنی ھے۔
اس بات کا قوی احتمال ھے کہ حدیث کا یہ آخری جملہ ان فریب کاروں، سرکشوں، حیلہ گروں، مکّاروں … کی نشاندھی کر رھا ھو جو آنحضرت (ص) کے بعد بڑے بڑے عنوان کے ساتھ ظاھر ھوئے۔ جیسے بنی امیہ اور ان کے سرکردہ معاویہ، جہاں خال المومنین اور کاتب وحی جیسے مقدس عناوین لگے ھوئے ھیں ان لوگوں نے عوام کو صراط مستقیم سے منحرف اور ان کو جاھلی رسومات کی طرف واپس لانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی، متقی اور ایمان دار افراد کو کنارے کردیا، اور عوام پر بدکاروں، جاھلوں اور جابروں کو مسلط کردیا۔
صحیح ترمذی کی ایک روایت یہ بھی ھے کہ آنحضرت (ص) نے دجال کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ:
ما من نبی الا وقد انذر قومہ ولٰکن ساقول فیہ قولا لم یقلہ نبی لقومہ تعلمون انہ اعور۔ (وھی مآخذ)
ھر نبی نے اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرایا ھے، لیکن اس کے بارے میں، میں ایک ایسی بات کہہ رھا ھوں جو کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہا، اور وہ یہ کہ وہ کانا ھے۔
بعض حدیثوں میں ملتا ھے کہ حضرت مھدی (عج) کے ظھور سے پہلے تیس دجال رونما ھوں گے۔
انجیل میں بھی دجّال کے بارے میں ملتا ھے کہ:
تم کو معلوم ھے کہ دجال آنے والا ھے۔ آج کل بھی کافی دجال ظاھر ھوتے ھیں۔ 2
اس عبارت سے صاف ظاھر ھے کہ دجال متعدد ھیں۔
ایک دوسری حدیث میں آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ:
لا تقوم الساعۃ حتی یخرج نحوستین کذا بکلھم یقولون انا نبی۔
قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ساٹھ (60) جھوٹے پیدا نہ ھوجائیں جن میں سے ھر ایک اپنے پیغمبر بتائے گا۔ 3
اس روایت میں گرچہ دجال کا لفظ نہیں ھے لیکن اتنا ضرور معلوم ھوتا ھے کہ آخری زمانہ میں جھوٹے دعوے داروں کی تعداد ایک دو پر منحصر نہیں ھوگی۔
یہ ایک حقیقت ھے ک جب بھی کسی معاشرے میں انقلاب کے لئے زمین ھموار ھوتی ھے تو غلط افوا ھیں پھیلانے والوں، فریب کاروں، حیلہ گروں اور جھوٹے دعوے داروں کی تعداد بڑھ جاتی ھے۔ یہی لوگ ظالم اور فاسد نظام کے محافظ ھوتے ھیں ان کی کوشش یہ ھوتی ھے کہ عوام کے جذبات، احساسات اور ان کے افکار سے غلط فائدہ اٹھایا جائے۔
یہ لوگ انقلاب کو بدنام کرنے کے لئے خود بھی بظاھر انقلابی بن جاتے ھیں اور انقلابی نعرے لگانے لگتے ھیں ایسے ھی لوگ انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ھیں۔
یہ وہ دجال ھیں جن سے ھوشیار رھنے کے بارے میں ھر نبی نے اپنی امت سے نصیحت کی ھے۔
حضرت مھدی (عج) کا انقلاب صحیح معنوں میں عالمی انقلاب ھوگا۔ اس عالمی انقلاب کے لیے عوام میں جس قدر آمادگی بڑھتی جائے گی جتنا وہ فکری طور س آمادہ ھوتے جائیں گے ویسے ویس دجّالوں کی سرگرمیاں بھی تیز ھوتی جائیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ انقلاب کی راہ میں روڑے اٹکا سکیں۔
ھوسکتا ھے کہ ان تمام دجالوں کی سربراھی ایک بڑے دجّال کے ھاتھوں میں ھو، اور اس دجال کی جو صفات بیان کی گئی ھیں وہ علامتی صفات ھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ مجلسی (رح) نے بحار الانوار میں ایک روایت امیر المومنین علیہ السلام سے نقل فرمائی ھے جس میں دجال کی صفات کا ذکر ھے وہ صفات یہ ھیں:
1) اس کے صرف ایک آنکھ ھے، یہ آنکھ پیشانی پر ستارۂ صبح کی طرح چمک رھی ھے۔ یہ آنکھ اس قدر خون آلود ھے گویا خون ھی سے بنی ھے۔
2) اس کا خچر (سواری) سفید اور تیزرو ھے، اس کا ایک قدم ایک میل کے برابر ھے۔ وہ بہت تیز رفتاری سے زمین کا سفر طے کرے گا۔
3) وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا۔ جس وقت اپنے دوستوں کو آواز دے گا تو ساری دنیا میں اس کی آواز سنی جائے گی۔
4) وہ دریاؤں میں ڈوب جائے گا۔ وہ سورج کے ساتھ سفر کرے گا، اس کے سامنے دھنویں کا پہاڑ ھوگا اور اس کی پشت پر سفید پہاڑ ھوگا۔ لوگ اسے غذائیں مواد تصور کریں گے۔
5) وہ جس وقت ظاھر ھوگا اس وقت لوگ قحط میں اور غذائی مواد کی قلت میں مبتلا ھوں گے۔ 4
یہ بات اپنی جگہ صحیح ھے کہ ھمیں یہ حق حاصل نہیں ھے کہ ھم قرآن اور احادیث میں بیان شدہ مطالب کو علامتی عنوان قرار دیں کیونکہ یہ کام ایک طرح کی تفسیر بالرائے ھے جس کی شدّت سے مخالفت کی گئی ھے۔ لیکن یہ بھی صحیح نہیں ھے کہ عقلی اور نقلی قرینوں کی موجودگی میں لفظ کے ظاھری مفھوم سے چپکے رھیں۔
آخری زمانے کے بارے میں جو روایتیں وارد ھوئی ھیں ان میں علامتی عنوان بکثرت موجود ھیں۔
مثلا ایک روایت میں ھے کہ اس وقت مغرب سے آفتاب آئے گا۔ اگر اس حدیث کے ظاھری معنی مراد لئے جائیں تو اس کی دو صورتیں ھیں۔ ایک یہ کہ آفتاب ایکا ایکی مغرب سے طلوع کرے تو اس صورت میں منظومہ شمسی کی حرکت بالکل معکوس ھوجائے گی جس کے نتیجہ میں نظام کائنات درھم برھم ھوجائے گا۔ دوسرے یہ کہ آفتاب رفتہ رفتہ مغرب سے طلوع کرے۔ تو اس صورت میں رات دن اس قدت طولانی ھوجائیں گے جس سے نظام زندگی میں درھمی پیدا ھوجائے گی واضح رھے کہ یہ دونوں ھی معنی حدیث سے مراد نہیں ھیں۔ کیونکہ نظام درھم برھم ھونے کا تعلق سے ھے آخری زمانے سے نہیں، جیسا کہ صعصعہ بن صوحان کی روایت کے آخری فقرے سے استفادہ ھوتا ھے کہ یہ حدیث ایک علامتی عنوان ھے امام زمانہ کے بارے میں۔
نزال بن سیدہ جو اس حدیث کے راوی ھیں، انھوں نے صعصعہ بن صوحان سے دریافت کیا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے دجال کے بارے میں بیان کرنے کے بعد یہ کیوں ارشاد فرمایا کہ مجھ سے ان واقعات کے بارے میں نہ دریافت کرو جو اس کے بعد رونما ھوں گے۔
صعصعہ بن صوحان نے فرمایا:۔
جس کے پیچھے جناب عیسیٰ (ع) نماز ادا کریں گے وہ اھل بیت علیہم السلام کی بارھویں فرد ھوگا اور امام حسین علیہ السلام کی صلب میں نواں ھوگا۔ یہ وہ آفتاب ھے جو اپنے کو مغرب سے طلوع کرے گا۔
لہٰذا یہ بات بہت ممکن ھے کہ دجال کی صفات علامتی عنوان کی حیثیت رکھتی ھوں جن کا تعلق کسی خاص فرد سے نہ ھو بلکہ ھر وہ شخص دجال ھوسکتا ھے جو ان صفات کا حامل ھو یہ صفات مادی دنیا کے سر براھوں کی طرف بھی اشارہ کر رھی ھیں، کیونکہ:
1) ان لوگوں کی صرف ایک آنکھ ھے، اور وہ ھے مادی و اقتصادی آنکھ ۔ یہ لوگ دنیا کے تمام مسائل کو صرف اسی نگاہ سے دیکھتے ھیں۔ مادی مقاصد کے حصول کی خاطر جائز و ناجائز کے فرق کو یکسر بھول جاتے ھیں۔
ان کی یہی مادی آنکھ بہت زیادہ چمکدار ھے، کیونکہ ان لوگوں نے صنعتی میدان میں چشم گیر ترقی کی ھے۔ زمین کی حدوں سے باھر نکل گئے ھیں۔
2) تیز رفتار سواریاں ان کے اختیار میں ھیں۔ مختصر سی مدّت میں ساری دنیا کا چکّر لگا لیتے ھیں۔
3) یہ لوگ خدائی کے دعوے دار ھیں۔ کمزور اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی قسمت سے کھیلنا اپنا فرض سمجھتے ھیں۔
4) جدید ترین آبدوزوں کے ذریعہ سمندر کی تہوں میں سورج کے ساتھ سفر کرتے ھیں، ان کی نگاھوں کے سامنے دیو پیکر کارخانے، دھویں کا پہاڑ، اور ان کے پیچھے غذائی مواد کا انبار سفید پہاڑ، (جس کی عوام غذائی اشیاء تصور کرتے ھیں، جب کہ وہ صرف پیٹ بھراؤ چیزیں ھیں، ان میں غذائیت نہیں ھے)۔
5) قحط، خشک سالی، استعماریت، جنگ کے لئے سرمایہ گذاری، اسلحہ کے کمرشکن مصارف قتل و غارت گری … ان چیزوں کی بنا پر غذائی اشیاء میں شدید قلت پیدا ھوجاتی ھے جس کی وجہ سے بعض لوگ بھکمری کا شکار ھوجاتے ھیں۔
یہ حالات دجال کے منصوبہ بند پروگرام کا نتیجہ ھیں جس سے وہ حسب منشاء استفادہ اٹھاتا ھے۔ کمزوروں، غریبوں اور زحمت کشوں کی امداد کے بہانے اپنے اقتدار کو استحکام عطا کرتا ھے۔
بعض روایتوں میں ھے ک دجّال کی سواری کے ھر بال سے مخصوص قسم کا ساز سنائی دے گا یہ روایت آج کل کی دنیا پر کس قدر منطبق ھو رھی ھے کہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں موسیقی کا جال بچھا ھوا ھے کوئی گھر سازو آواز سے خالی نہیں ھے۔
خواہ دجال ایک مخصوص شخص کا نام ھو، خواہ دجال کی صفات علامتی عنوان کی حیثیت رکھتی ھوں، بہر حال عالمی انقلاب کے منتظر افراد، اور حضرت مھدی (عج) کے جانبازوں کی ذمہ داری ھے کہ وہ دجال صفت افراد سے مرعوب نہ ھوں اور ان کے دام فریب میں گرفتار ھوں۔ انقلاب کے لئے زمین ھموار کرنے کے لئے ھر ممکن کوشش کرتے رھیں، اور کسی وقت بھی ناکامی اور سستی کے احساس کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔


1. صحیح ترمذی۔ باب ماجاء فی الدجال ص42
2.رسالہ دوم یوحنا۔ باب 1 جملہ 6۔ 7
3. بحار الانوار ج52 ص209
4. بحار الانوار ج52 ص192 صعصعہ بن صفوان کی حدیث سے اقتباس۔
 
2) سفیانی کا ظھور ظلم و فساد کا رواج
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma