پہلا سبق:رہبران الہٰی کی ضرورت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
دوسرا سبق: قانون گزاری کے لئے انبیاء کی ضرورت دسواں سبق:عدل الہٰی اور مسئلہ ”خلود“

ہمارے علم ودانش کی محدودیت
ممکن ہے بعض لوگ یہ سوچیں کہ کیا اصولی طور پر خدا کی طرف سے لوگوں کی راہنمائی کے لئے انبیاء کا مبعوث ہو نا ضروری ہے؟
کیا ہماری عقل وشعور حقائق کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے ؟کیا انسان کی علمی ترقی پوشیدہ اسرار کو کشف کر نے اور تمام حقائق کو واضح کر نے کے لئے کافی اور مددگار نہیں ہے؟
جو چیزیں ممکن ہیں انبیاء ہمارے لئے لے آئیں وہ دو حالتوں سے خارج نہیں ہیں :یاہماری عقل ان کو بخوبی درک کرتی ہے یا درک کر نے سے قاصر ہے۔
پہلی صورت میں ہم انبیاء کو تکلیف دینے کے محتاج نہیں ہیں ۔جبکہ دوسری صورت میں ہمیں عقل و خرد کے خلاف مطالب کو قبول کر نے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
دوسرے الفاظ میں :کیا یہ درست ہے کہ انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر کسی دوسرے کے اختیار میں دے دے اور اس کی بات کو کسی چون و چرا کے بغیر قبول کرے ؟کیا انبیاء ہمارے جیسے انسان نہیں ہیں ؟یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو اپنے جیسے انسانوں کے اختیار میں دے دیں؟
جواب
چند نکات کی طرف توجہ کر نے سے ان تمام سوالات کے جواب اور انسان کی زندگی کے نظام میں انبیاء کا مرتبہ واضح ہو جائے گا۔
۱۔ہمیں جاننا چاہئے کہ ہمارا علم وشعور محدود ہے ۔بشر کو نصیب ہوئی تمام علمی ترقی کے باوجود آج جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ ہمارے نہ جاننے کے مقابلہ میں ایک سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ اور ایک پہاڑ کے مقابلہ ایک تنکے کے مانند ہے ۔یا بعض بڑے دانشوروں کے کہنے کے مطابق جو بھی علوم آج ہمارے اختیار میں ہیں وہ کائنات کی کتاب ہستی کے الف با کے برابر ہیں۔
دوسرے الفاظ میں:ہمارے فیصلہ اور عقلی ادراک کا دائرہ ایک چھوٹے سے علاقہ کے مانند ہے کہ علم ودانش کی شعاعوں نے اسے روشن کیا ہے اور ہم اس کے باہر کی دنیا سے بالکل بے خبر ہیں۔
انبیاء آتے ہیں اور اس وسیع علاقہ کو ہماری ہر ضرورت کی حد تک روشن کرتے ہیں۔حقیقت میں ہماری عقل ایک قوی اور تیز روشنی والے لیمپ کے مانند ہے،لیکن انبیاء اور آسمانی وحی کی مثال تمام عالم کو روشن کر نے والے سورج کے مانند ہے۔کیا ایک قوی اور تیز روشن لیمپ رکھنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں سورج کا محتاج نہیں ہوں ؟!
واضح تر عبارت میں:زندگی کے مسائل کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :”معقول“،”غیر معقول“ اور”مجہول“۔
انبیاء ہر گز نا معقول بات،یعنی عقل وخرد کے خلاف نہیں کہتے اور اگر ایسی بات کہیں تو وہ انبیاء نہیں ہیں ۔وہ مجہو لات کو سمجھنے اور درک کر نے میں ہماری مدد کرتے ہیں اور یہ بات ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
لہذا وہ افراد جو زمانہ ماضی میں کہتے تھے کہ عقل وخرد کے ہوتے ہوئے ہم انبیاء کے محتاج نہیں ہیں ،(جیسے برہمن جو ہندوستان اور بعض دیگر علاقوں میں رہتے ہیں)یا وہ لوگ جوآج یہ کہتے ہیں کہ ان تمام علمی ترقیوں اور کا میابیوں کے بعد انسان انبیاء اور ان کی تعلیمات کا محتاج نہیں ہے ،تو وہ نہ انسان کے علم ودانش کی وسعت سے باخبر ہیں اور نہ انبیاء کی رسالت کا ادراک رکھتے ہیں ۔
ان لو گوں کی مثال اس بچے کی ہی ہے جوپہلی جماعت میں الف با پڑھنے کے بعد کہے کہ میں سب کچھ جا نتا ہوں اور مجھے معلم و استاد کی ضرورت نہیں ہے، کیا اس کی یہ بات بے بنیاد نہیں ہے؟
انبیاء صرف معلم ہی نہیں ہیں، ان کی رہبری کا مسئلہ ایک مستقل بحث کا حامل ہے کہ بعد میں ہم اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
۲۔کوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر اپنے ہی جیسے کسی شخص کے اختیار میں دے دے ۔اصل بات یہ ہے کہ انبیاء۔جیسا کہ ہم بعد میں ثابت کریں گے ۔وحی الہٰی یعنی خداوند متعال کے لا محدودعلم سے رابطہ رکھتے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ قطعی دلائل کے ساتھ خداوند متعال سے ان کے رابطہ کو پہچانیں ،صرف اسی صورت میں ہم انبیاء کی باتوں کونہ صرف قبول کریں گے بلکہ ان کی تعلیمات پر دل وجان سے عمل بھی کریں گے ۔
اگر میں ایک ماہر اور ہمدرد طبیعت کے نسخہ پر عمل کروں تو کیا میں نے کو ئی برا کام کیا ہے؟
انبیاء ہمارے عظیم روحانی طبیب ہیں۔
اگر ہم نے اپنے معلم واستاد کے درس کو ،جو ہماری عقل و فکر کے مطابق ہے،کو قبول کریں تو کیا ہم نے غلط کام کیا ہے؟انبیاء بشریت کے سب سے بڑے معلم ہیں۔
بہتر یہ ہے کہ ہم خدا کی طرف سے انبیاء کی بعثت کی ضرورت کے دلائل پر مزید دقت کے ساتھ بحث کریں ۔
ہمارے پاس تین ایسی واضح اور محکم دلیلیں موجود ہیں ،جن سے ثابت ہو تا ہے کہ ہم انبیاء کی راہنمائی کے محتاج ہیں:

۱۔تعلیم کے اعتبار سے احتیاج

اگر ہم نور کی ایک خیالی اور افسانوی سواری پر سوار ہو کر تین لاکھ کیلو میٹر (پچاس ہزار فرسخ)فی سیکنڈ کی رفتار سے اس لا محدود کائنات کی سیر کریں تو کسی شک وشبہہ کے بغیر ہمیں حضرت نوح(ع) کی عمر جیسی ہزاروں عمریں در کار ہوں گے تاکہ ہم اس وسیع و عریض کائنات کے صرف ایک گوشے کا نظارہ کرسکیں۔
یہ کائنات اپنی ان تمام حیرت انگیز وسعتوں کے ساتھ یقینا عبث اور فضول نہیں بنائی گئی ہے اور جیسا کہ ہمیں توحید کے اسباق میں معلوم ہوا ہے کہ اس کائنات کا کوئی بھی فائدہ یا نفع خداوند متعال کے لئے نہیں ہے کیونکہ وہ ایک ایسا وجود ہے جو ہر لحاظ سے کامل،بے نیاز ،لامحدوداورہر نقص وعیب سے پاک ہے۔اس نے اس کائنات کو اس لئے نہیں بنایا ہے کہ اپنے کسی نقص کو بر طرف کرے۔
اس لئے ہم یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ خداوند متعال کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں پر جو دو کرم کرے اور تمام موجودات کو تکا مل تک پہنچا دے ،جیسے سورج جو ہم زمین والوں پر چمکتا ہے حالانکہ وہ ہمارا محتاج نہیں ہے ۔سورج کی یہ روشنی صرف ہمارے فائدے کے لئے ہے ورنہ ہم سورج کے لئے کون سی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔
کیا ہمارے لئے رشد و تکامل کی راہ کو طے کرنے اور انسان کامل کے مرحلہ تک پہنچنے کے لئے صرف ہماری معلومات کافی ہیں؟
ہم اس کائنات کے اسرار ورموز میں سے کتنے اسرار کے بارے میں آگاہ ہیں؟ بنیادی طور پر ہماری زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟یہ کائنات کب سے وجود میں آئی ہے؟کوئی بھی شخص ان سوالات کے صحیح اور دقیق جوابات نہیں جانتا ۔یہ کائنات کب تک باقی رہے گی ؟اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔
اجتماعی اور اقتصادی زندگی کے لحاظ سے بھی ہر دانشور اپنا ایک خاص نظریہ رکھتا ہے۔
مثلاً ایک گروہ”سر مایہ داری“نظام کا قائل ہے جبکہ دوسرا گروہ ”سوشلزم“اور ”کمیونزم“ کے نظریات کا حامی ہے اور تیسرا گروہ نہ پہلے کو قبول کر تا ہے اور نہ ہی دوسرے کو بلکہ دونوں گروہوں کے نظریات کو نقصان دہ جان کر مسترد کرتا ہے ۔
اسی طرح زندگی کے دیگر مسائل میں بھی دانشوروں کے نظریات میں کافی اختلافات پائے جاتے ہیں۔
انسان حیران وپریشان ہو جاتا ہے کہ ان نظریات میں سے کس نظریہ کو قبول کرے۔؟!
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس بات کا اعتراف کیا جانا چاہئے کہ خلقت کے بنیادی اور حقیقی مقصد یعنی ”انسان کی تمام جہات میں پرورش ،بالید گی اور تکامل“کی منزل تک پہنچنے کے لئے ایسی تعلیمات کی ضرورت ہے جو صحیح اور حقیقی ہوں اور ہر قسم کی خطاؤں سے پاک اور زندگی کے حقائق کے مطابق ہوں ،ایسی تعلیمات جو اس طویل راہ میں اصلی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے انسان کی مددگار ثابت ہوسکیں۔
اور یہ سب کچھ صرف علم خدا یعنی انبیاء کے ذریعہ حاصل ہو نے والی الہٰی وحی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔اسی وجہ سے جس خدانے ہمیں اس کو طے کرنے کے لئے پیدا کیا ہے ،ضروری ہے کہ وہ ایسا علم ودانش بھی ہمارے اختیار میں قرار دے ۔

۲۔اجتماعی اور اخلاقی مسائل میں رہبری کی احتیاج

ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں” عقل وخرد “کے علاوہ ایک اور قوت بھی موجود ہے کہ جس کا نام ”غرائز اور خواہشات“ ہے :خود پسندی کا غریزہ ،خشم وغضب کا غریزہ ،شہوت کا غریزہ اور اس قسم کے بہت سے دیگر غرائز اور خواہشات۔
بیشک اگر ہم اپنے غرائز کو قابو میں نہ رکھیں تو وہ ہم پر مسلط ہو جائیں گے حتی ہماری عقل وخرد کو بھی اسیر بنالیں گے اور انسان تاریخ کے ظالموں اور جابروں کی طرح ایسے بھیڑیے کی شکل اختیار کرلے گا جو ہر اعتبار سے جنگل کے بھیڑیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔
ہم اخلاقی تربیت کے لئے ایک تربیت کرنے والے استادکے محتاج ہیں ،ہم ایک”نمونہ“اور ”اسوہ“کے محتاج ہیں تاکہ”محاکات“ کے اصول کے مطابق اس کی گفتار ورفتار پر عمل کرسکیں۔
یہ ضروری ہے کہ ہر لحاظ سے ایک کامل اور تربیت یافتہ انسان اس خطرناک اور نشیب و فراز سے پر راستے میں ہمارا ہاتھ پکڑ لے اور ہمیں غرائز وخواہشات کے طغیان سے بچائے ،اخلاقی فضائل کے اصولوں کو اپنے کردار وعمل سے ہمارے دل وجان میں نقش کردے اور ہماری روح میں شجاعت،شہامت ،انسان دوستی،مروت،عفو وبخشش، وفادری،سچائی ،امانت داری اور پاک دامنی کو پروان چڑھائے۔
معصوم انبیاء کے علاوہ کون ہمارا ایسا مربی اور راہنما بن سکتا ہے؟
اسی دلیل کے پیش نظر ممکن نہیں ہے کہ ہمارا مہر بان اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا خدا ہمیں ایسے راہنماؤں سے محروم رکھے۔(اس بحث کا باقی حصہ آئندہ سبق میں بیان ہو گا)


 غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔کیا آپ یہ احساس کرتے ہیں کہ آپ کا علم ودانش جس قدر بھی زیادہ ہو جائے آپ کی جہالت آپ کے علم کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے؟(مثال دیجئے)
۲۔کیا آپ اندھی تقلید اور انبیاء کی پیروی کے در میان فرق کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
۳۔اگر ہم کسی نا معلوم راستے پرراہنما کے بغیر چلیں تو ہمیں کن ممکنہ خطرے کا سامنا پڑ سکتا ہے؟
۴۔ہم انبیاء کی رہبری کے کس قدر اور کس لحاظ سے محتاج ہیں وضاحت کیجئے۔
۵۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس سبق میں کونسا مطلب باقی رہا ہے جو آئندہ سبق میں بیان کیا جائے؟

دوسرا سبق: قانون گزاری کے لئے انبیاء کی ضرورت دسواں سبق:عدل الہٰی اور مسئلہ ”خلود“
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma