ساتواں سبق:حدیث ”منزلت“اور حدیث ”یوم الدار“

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
آٹھواں سبق:حدیث ”ثقلین“اور حدیث”سفینہ“ چھٹاسبق:امامت ،سنّت نبی کی روشنی میں

بہت سے عظیم شیعہ وسنی مفسرین نے حدیث ”منزلت“کو سورئہ اعراف کی آیت نمبر ۱۴۲ کے ذیل میں نقل کیا ہے۔اس آیہ شریفہ میں حضرت موسی(ع) کے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر جانے اور اپنی جگہ پر ہارون کو جانشین مقرر کر نے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
حدیث یوں ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی گئی کہ مشرقی روم کے بادشاہ نے حجاز،مکہ اور مدینہ پر حملہ کر نے کے لئے ایک بڑی فوج کو آمادہ کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کواپنے خاص انسانی اور حریت و استقلال کے نظام کے ساتھ اس علاقہ میں پہنچنے سے پہلے ہی ،نابود کر دیا جائے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مدینہ میں حضرت علی (ع) کو اپنا جانشین مقرر فر ماکر ایک عظیم لشکر کے ہمراہ تبوک کی طرف روانہ ہو گئے (تبوک جزیرہ عرب کے شمال میں مشرقی روم کی سلطنت کی سر حد پر واقع تھا)
حضرت علی(ع) نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خدمت میں عرض کی:کیا مجھے بچوں اورعورتوں کے درمیان چھوڑ رہے ہیں ؟(اور اس بات کی اجازت نہیں دے رہے ہیں کہ آپکے ہمراہ میدان جہاد میں چل کر اس عظیم افتخار کو حاصل کروں؟)۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
”الاترضی ان تکون منّی بمنزلة ھارون من موسی الا انّہ لیس نبی بعدی؟“
”کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمھاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون(ع) کی موسی(ع) سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا؟“
مذکورہ عبارت اہل سنت کی مشہور ترین حدیث کی کتابوں ،یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نقل ہوئی ہے ،صرف اس فرق کے ساتھ کہ صحیح بخاری میں پوری حدیث درج ہے اور صحیح مسلم میں ایک مرتبہ پوری حدیث اور دوسرے مرتبہ صرف جملہ ”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ لّا انّہ لا نبی بعدی“ایک کلی اور تمام جملہ کی صورت میں نقل کی گئی ہے۔(۱)
اس کے علاوہ یہ حدیث اہل سنت کی دوسری کتابوں ،جیسے:”سنن ابن ماجہ“،”سنن ترمذی“اور بہت سی دوسری کتابوں میں نقل کی گئی ہے اور اصحاب رسولپر مشتمل اس حدیث کے راویوں کی تعدادبیس افراد سے زیادہ ہے،جن میں جابر بن عبداللہ انصاری ،ابو سعید خدری،عبداللہ بن مسعود اور معاویہ بھی شامل ہیں۔
ابو بکر بغدادی نے ”تاریخ بغداد“میں عمر بن خطاب سے یوں نقل کیا ہے:عمر بن خطاب نے ایک شخص کو حضرت علی(ع) کے خلاف برا بھلا کہتے ہوئے دیکھا ،عمر نے اس شخص سے کہا :مجھے لگتا ہے کہ تم منافق ہو، کیونکہ میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے
۱۔صحیح بخاری ج۶،ص۳۔ صحیح مسلم ج۱،ص۴۴۔اور ج۴،ص۱۸۷۔
کہ آپ فرما تے تھے:
”انّما علیّ منّی بمنزلة ھارون من موسی(ع) الّانہ لا نبیّ بعدی“ (تاریخ بغداد ،ج۷،ص۴۵۲)
”علی علیہ السلام کی نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کی موسی(ع) سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔“
قابل توجہ بات ہے کہ احادیث کے معتبر منابع و ماٴخذ سے معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات (حدیث منزلت) صرف جنگ تبوک کے موقع پر ہی نہیں فر مائی ہے بلکہ درج ذیل سات مواقع پر بیان فر مائی ہے جو اس کے عام اور واضح مفہوم کی دلیل ہے:
۱۔”مکہ کے پہلے مواخات کے دن“۔یعنی جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں اپنے اصحاب سے برادری اور اخوت کا عہد و پیمان باندھا،اس موقع پر آپ نے یہی جملہ تکرار فر مایا۔
۲۔”مواخات کے دوسرے دن“۔جب (مدینہ منورہ میں) مہاجر وانصار کے در میان برادری و اخوت کا عہد وپیمان باندھا تو اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث منزلت کو دوسری بار بیان فر مایا۔
۳۔جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے گھروں کے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں اور صرف حضرت علی (ع) کے گھر کا دروازہ کھلا رہے،توآپ نے اس پر بھی اس جملہ (حدیث منزلت )کو دھرایا۔
۴،۵،۶ و۷۔اسی طرح غزوہ تبوک کے دن اور اس کے علاوہ تین اور مواقع پر آنحضرت نے اس حدیث کو دھرایا ہے کہ ان کے مدارک اہل سنت کی تمام کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں، لہذا نہ سند کے لحاظ سے اس حدیث کے بارے میں کوئی شک وشبہہ باقی رہتا ہے اور نہ اس کے عام مفہوم (دلیل) مفہوم ہو نے کے لحاظ سے ۔
حدیث منزلت کا مفہوم
اگر ہم اپنے ذاتی نظریات سے ہٹ کر،غیر جانبدارانہ طور پر مذکورہ حدیث پر تحقیق و تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ حضرت ہارون کو جو تمام مناسب اور عہدے بنی اسرائیل میں حاصل تھے ،حضرت علی علیہ السلام بھی صرف نبوت کے علاوہ ان تمام عہدوں پر فائز تھے،کیونکہ اس حدیث میں نبوت کے عہدے کے علاوہ کوئی اور قید وشرط موجود نہیں ہے۔
اس لئے یہ نتیجہ نکلتا ہے:
۱۔علی(ع) امت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل تھے۔ (کیونکہ ہارون کا مرتبہ بھی ایسا ہی تھا)۔
۲۔علی(ع)،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وزیر،خاص نائب اور رہبری میں آپ کے شریک تھے،کیونکہ قرآن مجید نے حضرت ہارون کے لئے یہ تمام منصباور عہدے ثابت کئے ہیں ۔(سورہ طہ،آیت ۲۹ سے ۳۲ تک)
۳۔علی (ع) ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ تھے ،آپ(ع) کے ہوتے ہو ئے کوئی دوسرا شخص اس عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا تھا ،کیونکہ حضرت موسی(ع) کی نسبت حضرت ہارون (ع) بھی یہی مقام و منزلت رکھتے تھے۔
حدیث ”یوم الدار“
اسلامی تواریخ کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے تیسرے سال خدا کی طرف سے امر ہوا کہ اپنی خفیہ دعوت اسلام کو آشکار فر مائیں ، چنانچہ سورہ شعراء کی آیت نمبر ۲۱۴میں ارشاد ہوا ہے:
<وانذر عشیرتک الا قربین
”اور پیغمبر!آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔“
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اپنے چچا حضرت ابو طالب(ع) کے گھر میں کھا نے کی دعوت دی ،کھانا کھانے کے بعد فر مایا:
”اے عبد المطلب کے فرزندو!خدا کی قسم عرب میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جواپنی قوم کے لئے مجھ سے بہتر کوئی چیزلایا ہو ،میں تمھارے لئے دنیا وآخرت کی نیکیاں لایا ہوں اور خدا وند متعال نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو اس دین (اسلام )کی طرف دعوت دوں ،تم میں سے کون(اس کام میں) میری مدد کرے گا تاکہ وہ میرا بھائی ،وصی اور جانشین بن جائے“؟
سوائے علی علیہ السلام کے کسی بھی شخص نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک نہیں کہی ۔حضرت علی (ع) ان میں سب سے کم سن تھے،اٹھے اور عرض کی :”اے رسول خدا !میں اس راہ میں آپ کا یار ویاور ہوں ۔“پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی گردن پر اپنا دست مبارک رکھ کر فر مایا:
”ان ھٰذا اخی ووصی وخلیفی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ“
”یہ تم لوگوں میں میرا بھائی،وصی اور جانشین ہے،اس کی بات سنو اور اس کے حکم کی اطاعت کرو۔“
لیکن اس گمراہ قوم (قریش)نے نہ فقط پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ آپ کا مذاق بھی اڑایا۔
مذکورہ حدیث جو کہ حدیث ”یوم الدار“روز دعوت ذو العشیرہ کے نام سے مشہور ہے، کافی حد تک واضح اور گو یا ہے ۔اور سند کے ساتھ بہت سے اہل سنت علماء،جیسے:ابن ابی جریر ،ابن ابی حاتم ،ابن مردویہ،ابونعیم،بیہقی،ثعلبی،طبری،ابن اثیر،ابو الفداء اور دوسرے لو گوں نے اسے نقل کیا ہے۔(۱)
اگر ہم مذکورہ حدیث کے بارے میں بھی غیر جانبدارانہ طور پر تحقیق و تجزیہ کرین گے تو حضرت علی(ع) کی ولایت وخلافت سے مربوط حقائق بالکل واضح ہو جائیں گے کیونکہ اس حدیث میں بھی مسئلہ خلافت و ولایت کے بارے میں صراحت سے ذکر کیاگیا ہے۔


۱۔مزید تفصیلات کے لئے کتاب” المراجعات“،ص۱۳۰سے الخ اورکتاب ”احقاق الحق“،ج۴،ص۶۲الخ کی طرف رجوع کیا جائے۔
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔حدیث ”منزلت“کیا ہے؟ اور یہ حدیث کتنے مواقع پر بیان کی گئی ہے؟
۲۔حدیث”منزلت“کا مفہوم حضرت علی (ع) کے لئے کون سے منصب اور عہدے ثابت کرتا ہے؟
۳۔قرآن مجید کی روشنی میں حضرت ہارون (ع)کو حضرت موسی(ع) کی نسبت کون سا مرتبہ حاصل تھا؟
۴۔حدیث ”منزلت“کو کن علماء نے نقل کیا ہے؟
۵۔حدیث ”یوم الدار“،اس کا مفہوم،سند اور اس کا نتیجہ بیان کریں۔

آٹھواں سبق:حدیث ”ثقلین“اور حدیث”سفینہ“ چھٹاسبق:امامت ،سنّت نبی کی روشنی میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma