چوتھا سبق:معاد، فطرت کی جلوہ گاہ میں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
پانچواں سبق:قیامت،انصاف کی ترازومیں تیسراسبق :قیامت کی عدالت کا نمونہ خود آپ کے وجود میں ہے

عام طورپر کہاجاتا ہے کہ خدا کی معرت انسان کی فطرت میں موجود ہے۔اگر ہم ایک انسان کے آگاہ اور ناآگاہ ضمیر پر تحقیق و جستجو کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ ایک ایسے ماورائے طبیعت خالق پر ایمان رکھتا ہے جس نے علم، منصوبہ اور مقصد کے مطابق اس
کا ئنات کو پیدا کیاہے۔
لیکن یہ مسئلہ”توحید و خداشناسی“ تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ دین کے تمام بنیادی اصول اور فروع انسان کی فطرت کے اندرہونے چاہئے، اگر ایسا نہ ہوتو ”تشریعی“ اور”تکوینی“ احکام کے درمیان ضروری ہم آہنگی حاصل نہیں ہوگی۔(توجہ فرمایئے)
اگر ہم اپنے دل پر ایک نگاہ ڈالیں اور اپنی روح و جان کی گہرائیوں میں اترکر جستجو اور تحقیق کریں، تو ہم اپنے دل کے کانون سے یہ گنگناہٹ سنیں گے کہ زندگی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ موت عالم بقاء کی طرف کھلنے والا ایک دریچہ ہے!
اس حقیقت کو ماننے کے لئے ہمیں مندرجہ ذیل نکات پر توجہ کرنی چاہئے:

۱۔ بقاء کا عشق

اگر انسان کوواقعا فنا اور نابودی کے لئے پیدا کیا گیا ہے، تو اسے فنا اور نابودی کا عاشق ہوناچاہئے، اور اپنی عمر کے آخر میں موت سے لذت حاصل کرنی چاہئے۔ لیکن ہم اس کے برعکس دیکھتے ہیں کہ انسان کے لئے موت کا چہرہ (نابودی کے معنی میں) کسی بھی زمانہ میں نہ صرف خوشگوار نہیں ہے بلکہ وہ ہر ممکن صورت میں اس سے بھاگتاہے۔
ہمارا بقاء کے ساتھ یہ عشق بتاتا ہے کہ ہم بقاء کے لئے خلق کئے گئے ہیں،اوراگر ہم فنا کے لئے پیدا کئے گئے ہوتے تو اس عشق و محبت کے کوئی معنی نہیں تھے۔
ہمارے اندر پائے جانے والے تمام بنیادی عشق ہمارے وجود کو مکمل کرتے ہیں، بقاء کے ساتھ ہمارا عشق بھی ہمارے وجود کو مکمل کرنے والاہے۔
یہ نہ بھولئے کہ ہم نے ”معاد“ کی بحث کو خداوند حکیم و علیم کے وجود کو قبول کرنے کے بعد شروع کیاہے، ہماراعقیدہ ہے کہ اللہ نے جو کچھ ہمارے وجود میں خلق کیاہے وہ حساب و کتاب کے مطابق ہے، اس لحاظ سے انسان کا بقاء کے ساتھ عشق کا بھی کوئی حساب و کتاب ہوناچاہئے اور وہ اس دنیا کے بعدایک دوسری دنیا کے وجود کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہوسکتا۔

۲۔ گزشتہ اقوام میںقیامت کا عقیدہ

تاریخ بشر جس طرح گواہی دیتی ہے کہ زمانہ قدیم سے گزشتہ اقوام میں کلی طور پر مذہب کا وجود تھا،اسی طرح قدیم ترین زمانہ سے انسان کے”موت کے بعدوالی زندگی“ کے بارے میں راسخ عقیدہ کی بھی گواہی دیتی ہے۔
قدیمی حتی،قبل تاریخ کے انسانوں کے بارے میں ملنے والے آثار، بالخصوص قبور کی تعمیر اورمردوں کو دفن کرنے کے طریقے اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ وہ موت کے بعد والی زندگی پر ایمان رکھتے تھے۔
انسان میں ہمیشہ سے پائے جانے والے اس بنیادی عقیدہ کو محض ایک معمولی مسئلہ نہیں سمجھا جاسکتا ہے یا اسے ایک عادت یا تلقین کا نتیجہ تصور نہیں کیا جاسکتاہے۔
جب بھی ہم انسانی معاشروں میں پوری تاریخ کے دوران مستحکم بنیادوں پر مبنی کسی عقیدہ کو پائیں تو ہمیں اسے فطری ہونے کی علامت سمجھنا چاہئے، کیونکہ یہ صرف فطرت ہی ہے جو زمانہ حوادث اور اجتماعی و فکری تبدیلیوں کا مقابلہ کرسکتی ہے اور ثابت قدم رہ سکتی ہے، ورنہ عادات، رسومات اور تلقینیں زمانہ کے گزرنے کے ساتھ فراموش ہوجاتی ہیں۔
کسی خاص لباس کا پہننا ایک عادت یا آداب و رسوم کا حصہ ہے، لہذا حالات کے بدلنے یا زمانہ کے گزرنے سے اس میں تبدیلی آجاتی ہے۔
لیکن بیٹے کی نسبت ماں کی محبت ایک غریزہ اور فطرت ہے، لہذا نہ ماحول اور حالات کی تبدیلی اس کے شعلے کو خاموش کرسکتی ہے اورنہ زمانہ کے گزرنے کی وجہ سے اس پر گردوغبار پڑسکتاہے۔ اس طرح کی ہر کشش پیدا ہونے کی صورت میں جاننا چاہئے کہ یہ انسان کی فطرت کی دلیل ہے۔، جب دانشور کہتے ہیں: ”دقیق تحقیقات سے معلوم ہوتاہے کہ انسانوں کے ابتدائی اقوام بھی کسی نہ کسی مذہب کے پیرو تھے کیونکہ وہ اپنے مردوں کو ایک خاص طریقے پر دفن کرتے تھے اور ان کے کام کرنے کے آلات و وسائل کو ان کے ساتھ رکھتے تھے، اوراس طرح دوسری دنیا (آخرت) کے وجود پر اپنے عقیدہ کو ثابت کرتے تھے(۱)۔“
توہمیں بخوبی معلوم ہوتاہے کہ یہ اقوام موت کے بعد والی زندگی کا عقیدہ رکھتے تھے،اگرچہ وہ اس سلسلہ میں غلط راہ پر چلتے تھے اور یہ تصور کرتے تھے کہ موت کے بعد والی زندگی بھی اس دنیوی زندگی کے مشابہ ہے، اس لئے اس دنیا کے آلات اورسازوسامان کی وہاں بھی ضرورت پڑے گی۔

۳۔ معاد کے فطری ہونے کی ایک اور دلیل انسان کے اندر وجدان و ضمیر کی عدالت کا وجود ہے ۔

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی بیان کیا کہ ہم سب بخوبی احساح کرتے ہیں کہ ہماری یہ اندرونی عدالت ہمارے اعمال کی تفتیش کرتی ہے، نیکیوں کے مقابلہ میں جزادیتی ہے جس کے نتیجہ میں ہم ایسا آرام اور سکون کا احساس کرتے ہیں کہ ہماری روح نشاط وشادی کی ایک ایسی لذت محسوس کرتی ہے، جس کی توصیف سے زبامان اور قلم عاجز ہیں۔ اور بُرے کاموں بالخوصوص گناہان کبیرہ کے مقابلہ میںایسی سزا دیتی ہے جو انسان کے لئے زندگی کو تلخ بنادیتی ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض افراد نے ایک بڑے ظلم و جرم جیسے قتل کے ارتکاب کے بعد عدالت سے فرار کرنے کے بعد رضا کا رانہ طور پر خود کو عدالت میں پیش کیا ہے اور جرم کا اعتراف کرنے کے بعد پھانسی کے پھندے کا استقبال کیاہے اور اس کی وجہ ضمیرکے شکنجہ اور روحی عذاب سے نجات حاصل کرنا بتایاہے۔
اس باطنی و روحی عدالت کا مشاہدہ کرنے کے بعد انسان اپنے آپ سے یہ
۱۔ جامعہ شناسی”کینگ“ ،ص۱۹۲
سوال کرتاہے: یہ کسیے ممکن ہے کہ ایک چھوٹا وجود رکھنے کے باوجود میرے اندر ایک ایسی عدلات موجود ہو، لیکن اس عظیم کائنات کی کوئی عدالت نہ ہو؟!
اس لئے معاد کے عقیدہ اور موت کے بعد زندگی کے فطری ہونے کو درج ذیل تین راہوں سے ثابت کیا جاسکتاہے:
۱۔ بقاء کاعشق۔
۲۔ پوری تاریخ بشریت میں اس ایمان اور عقیدہ کا وجود۔
۳۔ انسان کی روح کے اندر اس کے ایک چھوٹے سے نمونہ کا وجود۔


 غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔غیرفطری امور کو فطری امور سے کیسے جدا کیا جاسکتا ہے؟
۲۔انسان کی بقاء سے عشق رکھنے کی دلیل کیا ہے؟اور یہ بقاء کا عشق کیسے معاد کے فطری ہو نے کی دلیل بن سکتا ہے ؟
۳۔کیا گزشتہ اقوام بھی معاد کا عقیدہ رکھتے تھے ؟
۴۔ہمارے ضمیر کی عدالت کیسے ہمیں جزا یا سزا دیتی ہے ؟اس کی دلیل اور کچھ نمو نے بیان کیجئے۔
۵۔ضمیر کی عدالت اور قیامت کی عظیم عدالت کے درمیان کیا ربط ہے ؟

پانچواں سبق:قیامت،انصاف کی ترازومیں تیسراسبق :قیامت کی عدالت کا نمونہ خود آپ کے وجود میں ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma