پانچواں سبق:قیامت،انصاف کی ترازومیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
چھٹا سبق:معاد کا اسی دنیا میں مشاہدہ چوتھا سبق:معاد، فطرت کی جلوہ گاہ میں

کائنات کے نظام اور خلقت کے قوانین پر تھوڑا ساغور کرنے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ہرجگہ قانون کی حکمرانی ہے اور ہر چیز اپنی جگہ پربرقرارہے۔
یہ عادلانہ نظام،انسان کے بدن میں اس قدر باریکی کے ساتھ قائم ہے کہ اس میں چھوٹی سی تبدیلی اور ناہم آہنگی بیماری یا موت کا سبب بن جاتی ہے۔
مثال کے طور پر آنکھ، دل اور مغز کی بناوٹ میں ہر چیز اپنی جگہ پرہے اور ضروری حد تک یہ عدالت اور نظم نہ صرف انسان کے بدن میں موجود ہے بلکہ تمام کائنات پر حکم فرماہے، جیسا کہ قرآن نے کہا ہے:
”بالعدل قامت السموات و الارض“
”عدل کے ذریعہ آسمان اور زمین قائم ہیں“
ایک ایٹم اس قدر چھوٹا ہے کہ دسیوں لاکھ ایٹم ایک سوئی کی نوک میں سماسکتے ہیں ۔ذرا غور کیجئے کہ اس ایٹم کی بناوٹ کس قدر دقیق اور منظم ہونی چاہئے کہ کروڑوں سال سے اپنی اس حالت کو قائم رکھتا ہے۔
یہ الیکٹر ونوں اور یروٹونوں کے دقیق نظام میں غیر معمولی توازن وتعادل کی وجہ سے ہے اور کوئی بھی بڑا یا چھوٹا سسٹم اس حیرت انگیز نظام سے باہر نہیں ہے ۔
کیا واقعاًانسان ایک استثنائی مخلوق ہے؟اس عظیم کائنات کے لئے ایک نا موزون اور نا منظم جزء اور ایک بے جوڑ پیوند ہے کہ اسے آزاد رہنا چاہئے اور جس بے نظمی، ظلم اور بے انصافی کو چاہے ،اس کا مرتکب ہو جائے ؟یا یہاں پر ایک راز مضمر ہے؟
اختیار اور ارادہ کی آزادی
حقیقت میں انسان کائنات کی تمام مخلوقات سے ایک بنیادی تفاوت رکھتا ہے اور وہ اس کا ”اختیار اور ارادہ کی آزادی“رکھنا ہے۔
خداوند متعال نے انسان کو کیوں آزاد خلق کیا ہے اور فیصلہ کر نے کا حق اسے بخشا ہے تاکہ جو چاہے انجام دے؟
اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر وہ آزاد نہ ہو تا تو وہ کمال حاصل نہیں کر سکتا تھا اور یہ عظیم امتیاز انسان کے معنوی واخلاقی کمال کا ضامن ہے ۔مثلاًاگر کسی کو نیزے کی نوک پر مستضعفین کی مدد کر نے اور معاشرے کی بھلائی کے کام انجام دینے پر مجبور کیا جائے ،تو بہر صورت یہ نیک کام انجام پاسکتا ہے،لیکن مدد کرنے والے کے لئے کسی قسم کے اخلاقی و انسانی کمال کا سبب نہیں بن سکتا ہے،حالانکہ اگر وہ اپنی مرضی اور ارادہ سے اس کا ایک فی صد حصہ بھی دیدے تو اسی قدر اس نے اخلاقی و معنوی کمال کی راہ پر قدم بڑھا یا ہے۔
اس لئے معنوی و اخلاقی کمال حاصل کر نے کی پہلی شرط ”اختیار وارادہ کی آزادی“ہے تاکہ انسان اپنی مرضی سے اس راہ کو طے کرے نہ کہ عالم طبیعت کے اضطراری عوامل کی طرح مجبوری کی حالت میں ۔خداوند متعال نے انسان کو یہ نعمت اسی بلند مقصد کے لئے عطا کی ہے۔
لیکن یہ نعمت اس پھول کے مانند ہے جس کے ارد گرد کانٹے بھی اگے ہو تے ہیں،او ریہ کانٹوں کا اگنا انسان کا اس آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھاکر ظلم وستم اور گناہ کا مرتکب وآلودہ ہو نا ہے۔
البتہ خدا وند متعال کے لئے اس میں کوئی مشکل نہیں تھی کہ اگر انسان ظلم وستم کا مرتکب ہوتا تو فوراً اس پر ایک ایسا عذاب نازل کر تا کہ پھر ایسا کبھی سوچتا بھی نہیں ،مثلاً اس کے ہاتھ فلج ہو جاتے ،آنکھیں اندھی ہو جاتیں اور زبان بے کار ہو جاتی۔
صحیح ہے کہ ایسی صورت میں کو ئی شخص آزادی کا نا جائز فائدہ نہ اٹھاتا اور گناہ کے پیچھے نہ جاتا،لیکن حقیقت میں یہ پرہیز گاری اور تقویٰ کا جبری پہلو ہوتا،اور انسان کے لئے کوئی فضیلت نہیں ہوتی بلکہ یہ شدید ،فوری اور بلا فاصلہ سزا سے ڈرنے کے سبب ہو تا۔
لہذا،انسان کو ہر حالت میں آزاد ہو نا چاہئے ،اور پرور دگار عالم کے گونا گوں امتحانات کے لئے آمادہ ہو نا چاہئے ،اور استثنائی مواقع کے علاوہ فوری سزاؤں سے محفوظ رہنا چاہئے تاکہ اپنی وجودی قدر ومنزلت کا مظاہرہ کر سکے۔لیکن یہاں پر ایک مطلب باقی رہ جاتا ہے ۔اور وہ یہ ہے :
اگر یہی حالت بر قرار رہے اور ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق راستہ کا انتخاب کرے،تو کائنات پر حکم فرما خدا کے قانون عدالت کی خلاف ورزی ہو گی۔
یہاں پر ہمیں یقین پیدا ہو تا ہے کہ انسان کے لئے ایک عدالت معیّن ہوئی ہے،جس میں بلا استثنا سب لوگ حاضر کئے جائیں تا کہ اپنے اعمال کی جزا پائیں اور عالم خلقت کی عمو می عدالت سے اپنا حصہ وصول کریں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ وقت کے نمرود ،فر عون ،چنگیزاور قارون ایک عمر ظلم و ستم کر تے رہیں اور ان کے لئے کسی قسم کا حساب و کتاب نہ ہو؟
کیا یہ ممکن ہے کہ مجرم اور پر ہیز گار دونوں کو پرور دگارکی عدالت کی ترازو کے ایک ہی پلّہ میں رکھا جائے؟
قرآن مجید اس سلسلہ میں سورہ قلم کی آیت نمبر ۳۵،۳۶میں فر ماتا ہے:
<اٴفنجعل المسلمین کا لمجرمین مالکم کیف تحکمون
”کیا ہم اطاعت گزاروں کو مجرموں جیسا بنادیں ۔تمھیں کیا ہو گیا کیسا فیصلہ کر رہے ہو؟
ایک اور جگہ پر سورئہ ص کی آیت نمبر ۲۸ میں ارشاد ہو تا ہے :
<ام نجعل المتقین کا لفجّار
”کیا ہم صاحبان تقویٰ کو فاسق و فاجر افراد جیسا قرار دے دیں ؟“
صحیح ہے کہ بعض گناہگار اسی دنیا میں اپنے برے اعمال کی سزا پاتے ہیں یا اس سزا کے ایک حصہ کو پاتے ہیں ۔
صحیح ہے کہ ضمیر کی عدالت ایک اہم مسئلہ ہے۔
اور یہ بھی درست ہے کہ بعض اوقات گناہ اور ظلم وستم کے رد عمل اور بے انصافی کے برُے نتائج انسان کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیتے ہیں۔
لیکن اگر ہم درست اور دقت سے غور کریں تو معلوم ہو گا کہ مذکورہ تین امور میں سے کوئی ایک بھی عام نہیں تاکہ ہر ظالم وگناہ کار کو اس کے ظلم اور گناہ کے برابر سزادے۔ اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو مکافات عمل کے چنگل ،ضمیر کی سزا اور اپنے برے اعمال کے رد عمل سے فرار کر جاتے ہیں یا کافی حد تک سزا نہیں پاتے۔
ایسے افراد اور عام لوگوں کے لئے عدل وانصاف کی ایک عدا لت کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں پرذرہ برابر بھی نیک اور برُے کام کا محاسبہ ہو،اگر ایسا نہ ہو گا تو اصلاًعدل وانصاف حاصل نہیں ہو گا۔
لہذا ”پرور دگارکے وجود“اور ”اس کے عدل“کو قبول کرنا ”قیامت“اور ”دوسری دنیا“ کے قبول کر نے کے برابر ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے جزو لا ینفک ہیں۔


غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔آسمان اور زمین عدل کے ذریعہ کیسے قائم ہیں؟
۲۔انسان کو ”اختیار و ارادہ“کی آزادی کی نعمت سے کیوں نوازا گیا ہے؟
۳۔اگر گناہ گاراسی دنیا میں فوری طور پر اپنے اعمال کی شدید سزاپاتے تو کیا ہوتا؟
۴۔مکافات عمل ،ضمیر کی عدالت اور ہمارے اعمال کے رد عمل ہمیں قیامت کی عدالت سے کیوں بے نیاز نہےں کرتے؟
۵۔”عدل الہٰی“ اور ”معاد“کے مسئلہ کے در میان کیا رابطہ ہے؟

چھٹا سبق:معاد کا اسی دنیا میں مشاہدہ چوتھا سبق:معاد، فطرت کی جلوہ گاہ میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma