حج و عمرہ میں بتیس اہم اور مبتلا بہ مسائل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
مناسک حج
حج و عمرہ کے آداب و مستحبات عمرہٴ مفردہ

۱ ۔ حالت احرام میں راتوں کو یا بین الطلوعین یا ان ایام میں جب آسمان بادلوں سے مکمل ڈھکا ہوا ہو کہ سائبان دھوپ اور بارشی سے بچانے میں موثر نہ ہو بند گاڑیاں استعمال کرنا جائز ہے - جس طرح کہ حالت احرام میں داخلِ شہرِ ، مکہ بند گاڑی میں سوار ہونا بلا مانع ہے ( خواہ دن ہو یا رات) لیکن بہتر ہے اس حصہ میں کہ حرم سے باہر ہے ( یعنی اس طرف کہ مسجد تنعیم سے آگے جائے ) احتیاط کرے، لیکن اس بات کے پیش نظر کہ تنعیم کے بعد کا حصہ بھی جزء شہر مکہ ہے احتیاط مذکور واجب نہیں ہے -
2 ۔ لازم نہیں ہے طواف مقام ابراہیم اور خانہ کعبہ کے فاصلہ کے درمیان میں ہو ، بلکہ تمام مسجد الحرام میں طواف جائز ہے ، ( بالخصوص ازدحام جمعیت کے وقت ) لیکن بصورت امکان بہتر ہے فاصلہٴ مذکور سے تجاوز نہ کرے -
3 ۔ لازم نہیں ہے شانہٴ چپ تمام حالات میں محاذی کعبہ ہو ، بلکہ اسی قدر کہ تمام لوگوں کے معمول کے مطابق ہو خانہٴ کعبہ کا چکر لگائیں کافی ہے -
4 ۔ اگر طواف کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ انسان بلا اختیار فشار کے زیر اثر آگے بڑھ جائے ، طواف کے لئے مضر نہیں ہے ، اور اسی قدر کہ آغاز سے نیت کرتا ہے کہ طواف کے لئے جمعیت کے درمیان جائے کافی ہے ، ہر چند جانتا ہے کہ فشار جمعیت اس کو آگے لے جائے گا -
5 ۔ محلِّ نماز طواف واجب پشت مقام ابراہیم ہے ، لیکن اگر ازدحام جمعیت زیادہ ہو عقب تر ( پیچھے ) نماز پڑھی جاسکتی ہے بالخصوص اس موقعوں پر کہ طواف کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پشت مقام ابراہیم تک پہونچتی ہے - اس صورت میں طواف کرنے والوں کے لئے مزاحم نہ ہونا چاہئے - اور پشت مقام ابراہیم نماز پڑھنے پر اصرار نہ کرنا چاہئے جس طرح کا کام بعض عوام انجام دیتے ہیں - صحیح نہیں ہے ، لیکن نماز طواف مستحب مسجد الحرام میں ہر جگہ پڑھی جاسکتی ہے -
6 ۔ طبقہٴ بالا میں صفا و مروہ کی سعی جائز نہیں ہے مگر یہ کہ بھیڑ اتنی زیادہ ہو کہ پائینی طبقہ میں سعی مشقّت شدید کی حامل ہو -
7 ۔ صفا و مروہ کی سعی کرنے وقت کافی ہے صفا و مروہ کا تھوڑا سا بالائی حصہ طے کرے اور لازم نہیں ہے کھلے ہوئے پہاڑ کے حصہ تک پہونچے اور اپنے پیر کو اس سے چسپاں کرے کیونکہ صفا و مروہ میں سر بالائی مفردش جزء کوہ ہے -
8 ۔ طواف واجب کی حالت میں رفع خستگی کے لئے بیٹھنا بلا مانع ہے ، لیکن احتیاط یہ ہے کہ موالات عرفی نہ ٹوٹے ، یعنی فاصلہ زیادہ نہ ہو ، لیکن سعی کی حالت میں رفع خستگی وغیرہ کے لئے کسی قدر بھی بیٹھنا بلا مانع ہے - خواہ صفا میں ہو یا مروہ میں یا دونوں کے درمیان -
9 ۔ رمی جمرات بالائی طبقے سے بلا مانع ہے اور جو لوگ دن میں رمی نہیں کر سکتے ہیں شب قبل یا اس کے بعد رمی کر سکتے ہیں -
10 ۔ موجودہ قربانگاہوں میں سے کسی ایک قربانی گاہ میں قربانی کرنا جائز ہے ہر چند حدود منی سے باہر ہے ، شرط یہ ہے کہ گوشت تلف نہ ہو -
11 ۔ بہتر ہے قربانی کو بروز عید ذبح کریں لیکن تیرہویں تک اس کی تاخیر بھی جائز ہے -
12 ۔ لازم نہیں ہے کہ ذبح کرنے والا شیعہ ہو بلکہ ہر ایک مسلمان جس کا ذبیحہ پاک اور حلال ہے ذبح کر سکتا ہے -
13 ۔ سر کاٹنا اور حیوانات کو ذبح کرنا قربانی یا غیر قربانی کے لئے اسٹیل اور دوسرے فلزات سے کوئی اشکال نہیں رکھتا ہے -
14 ۔ قربانی کو شخصاً ذبح کر سکتا ہے اور کسی دوسرے مورد اطمینان شخص کو نیابت بھی دے سکتا ہے - خواہ مدیر کا روان ہو یا بعثہٴ حج کے افراد یا بعض احباب ( معیار نائب کے کام پر اطمینان ہونا ہے ) اور لازم نہیں ہے کہ وکیل صاحب قربانی کا نام بھی جانے ، اسی قدر کہ اس کی نیت کرے کافی ہے ، ہر چند ذبح کے وقت اس کا نام لینا بہتر ہے اور اگر کوئی وکالت حاصل کئے بغیر دوسرے کی طرف سے قربانی کرے صحیح نہیں ہے -
15 ۔ مسلمان وہ کام کریں کہ گوشت قربانی تلف نہ ہو ، اور اس کے دفن کرنے اور جلانے پر مجبور نہ ہوں ، کیونکہ یہ کام اسراف اور حرام ہے ، اور ادلہ قربانی اس کو شامل نہیں ہیں ، اور چنانچہ منی میں مستحقین نہ ملیں لازم ہے گوشت کو تمام ممالک اسلامی پہنچائیں اور فقراء و مومنین کو دیں یا اس کا پیسہ علیحدہ رکھ دیں اور مراجعت کے بعد اپنے وطن میں قربانی کریں ، یا اپنے دوستوں سے ہماہنگ کریں کہ اسی دن رمی جمرہ کے بعد قربانی کریں ، ان میں سے ہر ایک کافی ہے -
16 ۔ جہاں تک ممکن ہے قربانی موجودہ قربانی گاہوں میں انجام دی جائے اور اس کا گوشت تلف ہونے سے روکا جائے ، لیکن اگر تلاش و کوشش کے بعد یقین پیدا کرے کہ گوشت قربانی کے استفادہ کے لئے کوئی راہ نہیں ہے اور حتما ضائع ہوگا ، لازم ہے وہاںقربانی کرنے سے صرف نظر کرے ، اور اس کا پیسہ علیحدہ رکھ دے ، اور مراجعت کے وقت اپنے وطن میں قربانی کرے - البتہ ماہ ذی الحجہ میں اسی سال ، اور اگر ممکن نہ ہوا سال آئندہ ماہ ذی الحجہ میں قربانی کرے گا ، اور ٹیلیفون کے ذریعے اپنے دوستوں سے بھی ہماہنگ کر سکتا ہے کہ اسی دن رمی جمرہ کے بعد قربانی کریں ، لیکن یہ کام واجب نہیں ہے-
17 ۔ ذبح حیوانات کے لئے مشینی وسائل سے استفادہ کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے لیکن شرائط ذبح شرعی (۱) کی رعایت ہو جیسے رو بقبلہ ہونا اور بسم اللہ کہنا وغیرہ وغیرہ -
18 ۔ بہتر ہے ہنگام ازدحام جمعیت ، طواف مستحبی کو ترک کردے اور محل طواف کو طواف واجب بجالانے والوں کے لئے آزاد چھوڑ دے -
19 ۔ احرام حج تمتع کے لئے مکہ میقات ہے اور مکہ کی کوئی بھی جگہ ہو کافی ہے اور جدید اور قدیم مکہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے حتی مکہ کے ان محلوں سے جو آج منی کی سمت آباد اور پھیلے ہوئے ہیں احرام باندھا جا سکتا ہے ؛ لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ شہر مکہ کے ان علاقوں سے جو مسجد تنعیم ( ۲ ) سے دورتر ہیں ، یعنی حدود حرم سے باہر ہیں احرام نہ باندھیں اور ہر جگہ سے بہتر مسجد الحرام ہے -
20 ۔ کاروانوں اور بعثہٴ حج کے کار کنان اور تمام وہ لوگ جو پہلے اپنا حج واجب بجا لا چکے ہیں اور انجام مراسم حج ان کے لئے مشکل ہے ، اول سے عمرہٴ مفردہ کی نیت کر سکتے ہیں اور اس کو کامل کر کے احرام سے باہر آئیں ، اور اس کے بعد عرفات و مشعر و منی جانے کے لئے یا نہ جانے اور مکہ میں رہنے اور امور کی رسیدگی کے لئے آزاد ہیں - البتہ اگر عرفات و مشعر و منی جائیں نیت وقوف نہ کریں - لیکن حفظ ظاہر کے لئے ( بلا نیت ) لباس احرام پہن سکتے ہیں ، اور اگر اپنے عمرہٴ مفردہ کو ذی الحجہ میں بجالائے ہیں عرفات سے واپس ہونے کے بعد تجدید عمرہ لازم نہیں ہے -
21 ۔ اہلسنت کے ساتھ نماز پڑھنا اور ان کی جماعت میں شرکت کرنا ایام حج اور مانند ایام حج میں حفظ وحدت مسلمین کے لئے مستحب موکد سے ہے اور دشمنوں کے مقابلے موجب تقویت صفوف ہے اور روایات معصومین میں اس بارے میں بیت زیادہ تاکید وارد ہوئی ہے اور ایسی نماز نماز واجب سے کفایت کرے گی اور اعادہ لازم نہیں ہے - حجاج محترم وقت نماز وغیرہ کے مسئلے میں ان کی پیروی کر سکتے ہیں اور ان کے ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں اور سجدہ کے لئے اگر مسجد کے پتھروں پر سجدہ کر سکتے ہیں تو اس پر سجدہ کریں ( کیونکہ سجدہ ان تمام پتھروں پر جائز ہے ) اور اگر نہ کر سکیں فرش کے اوپر سجدہ کریں گے اور دست بستہ نماز پڑھنا یا حمد کے بعد آمین کہنا لازم نہیں ہے -
زائرین محترم خانہٴ خدا ہلال ماہ ذی الحجہ کے بارے میں ان کی پیروی کر سکتے ہیں اور جو لوگ افطار کے وقت مسجد الحرام یا ان کی بقیہ مساجد میں حاضر ہیں اگر وہ لوگ افطار کرنے پر اصرار کریں ، ان کے ساتھ افطار کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے - اور ان کا روزہ صحیح ہے -
22 ۔ سجدہ کرنے کے لئے پنکھایا بلا نسخ کی حصیر ( چٹائی ) یا معمولی حصیر جس کا دھاگا بہت نازک اور معمولی ہوتا ہے ، استعمال کرنا ہر حال میں جائز ہے اور سجدہ گاہ سے استفادہ کرنا کہ مخالفین نا درست تبلیغات کی وجہ سے اس کے تئیں حسّاس ہیں کوئی لزوم نہیں رکھتا - بلکہ بعض مواقع پر خاک شفا استعمال کرنا ( کہ بد بینی اور اعتراض کا باعث ہے ) اشکال رکھتا ہے -
23 .
24 ۔ کاروانوں کے معلمین ، خادمین ( بعثہ کے کارکنان ، بینکوں کے ملازمین ، ڈاکٹر ، نرس اور تمام وہ لوگ جنکو کسی بھی عنوان سے حج کی دعوت دی جاتی ہے حج واجب کا قصد کر سکتے ہیں ، ہر چند مستطیع نہ ہوں اور یہی دعوت ان کی استطاعت کا سبب ہے اور کوئی دوسرا حج ان پر واجب نہیں ہے
25 ۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ جو لوگ حج نیابتی انجام دیتے ہیں اور ان کا پہلا سال ہے اتمام حج کے بعد عمرہٴ مفردہ ( طواف نساء کے ہمراہ ) اپنے لئے بجالائیں -
26 ۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ افراد معذور کہ بعض اعمال حج کو ترک کرنے پر مجبور ہیں نائب اور اجیر نہ ہوں ، لیکن وہ اعذار جو افراد کے لئے سفر حج میں پیش آتے ہیں جیسے تیمم ، جبیرہ اور بعض وقوفات اختیاری کو درک نہ کرنا جیسے اعذار ، عمل نائب کے لئے مانع نہ ہوں گے ، بلکہ مطابق دستور عمل کرے گا ، اور اس کا حج نیابتی صحیح ہے - اس طرح اگر تنگیٴ وقت کے باعث حجّ تمتّع سے حج افراد کی طرف عدول کرنے پر مجبور ہو - اور جو لوگ جہالت یا کم علمی کی وجہ سے حمد و سورہ کی اصلاح نہیں کر سکتے ہیں نیابت قبول نہ کریں ، ہر چند ان کا حج خو دان کے لئے بصورت ناچاری صحیح ہے -
27 ۔ نائب اور اجیر اعمال حج کو اپنے اجتہاد یا تقلید کے مطابق بجالائیں نہ اس شخص کی تقلید یا اجتہاد کے مطابق جس کی نیابت کر رہا ہے -
28 ۔ زائرین خانہٴ خدا کو اختیار ہے کہ مسجد الحرام اور مسجد النبی بلکہ تمام شہر مکہ و مدینہ میں نماز قصر پڑھیں یا تمام ، اور نماز تمام افضل ہے اور قدیم و جدید مکہ و مدینہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے -
29 ۔ جنھوں نے عرفات جانے سے پہلے دس دن مکہ میں اقامت کا قصد کیا ہے اور دس دن سے پہلے مکہ سے خارج ہونے کی ان کی نیت نہیں تھی ، جب عرفات و مشعر و منی جائیں گے ان کی نماز تمام ہے - اور یہ مسافت اگر چہ گزشتہ میں چار فرسخ کے بقدر تھی لیکن آج مکہ کی توسیع کی سبب کم تر ہوگئی ہے اور قصر کی مسافت نہیں ہے -
30 ۔ ہر اس جگہ سے احرام باندھنا جو آج مسجد شجرہ کا جزء ہے جائز ہے حتی مسجد شجرہ کے کنارے سے بھی احرام باندھا جا سکتا ہے -
31 ۔ شیعہ حجاج اور مکتب اہل بیت علیہ السلام کے پیرو کار ایام حج جیسے موقعوں پر بطور گروہی کا روانوں یا مسجد الحرام یا مسجد النبی میں نماز جماعت تشکیل نہ دیں ، اور ایسی نماز جماعت اشکال سے خالی نہیں ہے مگر یہ کہ چند نفر ی نماز ہو -
32 ۔ زائرین خانہٴ خدا ان تمام کاموں سے جو ضعف مذہب کی باعث ہیں اجتناب کریں ، جیسے
الف) اذان کے وقت یا نزدیک اذان مسجد الحرام ، مسجد النبی اور صفوف جماعت سے واپسی -
ب) بازاروں اور خیابانوں میں خرید و فروخت کرنا یا خریدی ہوئی چیزوں کے ساتھ ایسے اوقات میں کاروانوں کی طرف واپس آنا ، بلکہ ان کاموں کو چھوڑ کر جماعت سے ملحق ہوں -
ج ) نماز جماعت کے وقت دیوار بقیع کی پشت پر زیارت قبور معصومین علیہم السلام کے لئے اجتماع کرنا -
د ) ایسے نا مناسب لباس پہننا جو عموم کی نظروں میں گراوٹ کا سبب ہوں -
ھ) تمام زائرین خانہ خدا کے ساتھ یا ساکنان مکہ و مدینہ کے ساتھ گفتار و رفتار میں خشونت آمیز روش -
خلاصہ مکتب اہلبیت کے پیروکاروں کو وہ روش اور رفتار رکھنی چاہئے کہ سب محسوس کریں کہ وہ اہلبیت کی پیروی کی برکت سے تربیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں اور کسی قسم کا کوئی بہانہ مخالفین کو نہ دیں کہ اس کام سے انشاء اللہ ان کے اجر و ثواب میں کئی گنا اضافہ ہوگا -

حج و عمرہ کے آداب و مستحبات عمرہٴ مفردہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma