جنین کے مراحل ۔ تخلیق کا شاہکار

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 02
(۱) محکم و متشابہ آیات سے کیا مراد ہے ۔(4) قرآن کو فرقان کہنے کہ وجہ

علم جنین شناسی کی ارتقاء نے آج کی دنیا میں اس آیت کے مفہوم کی عظمت کو بہت اجا گر کردیا ہے ۔
ابتداء میں جنین ایک خلیے (Cell)پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اس وقت اس کی شکل و صورت ہوتی ہے نہ اعضا و جوارح ۔ اس میں کوئی طاقت و توانائی بھی نہیں ہوتی ۔ پھر وہ عجیب سرعت سے رحم کے مخفی خانے میں ہر روز نئی شکل اور نیا نقش و نگارا پناتا ہے جیسے نقش و نگار کے ماہرین اس کے پاس بیٹھے ہیں اور شب و روز اس پر کام کررہے ہیں اور اس ناچیز ذرّے سے تھوڑا ہی عرصے میں ایک انسان بنا ڈالتے ہیں ، وہ انسان جس کا ظاہر بہت ہی آراستہ و پیراستہ ہوتا ہے اور اس کے وجود کے اندر صاف ستھرے،پیچیدہ دقیق اور حیرت انگیز کار خانے نظر آنے لگتے ہیں ۔ اب اگر مراحل جنین کی فلم لی جائے ( جیسا کہ لی بھی گئی ہے ) اور انسان کی آنکھوں کے سامنے یہ منظر یکے بعد دیگرے گزرتے رہیں تو انسان کو عظمت خلقت اور قدرتِ خالق سے ایک نئی آشنائی ہوگی اور وہ بے اختیار کہہ اٹھے گا ۔
زیبندہ ستائش ، آن آفرید گاری است کآر و چنین دل آویز ، نقشی زماء وطینی
وہ خالق لائق تعریف ہے جو ایسا دلاویز نقش پانی اور مٹی سے بنالایا ہے ۔
اور تعجب کی بات ہے کہ یہ تمام نقش و نگار پان پر ہیں جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس نقش و نگار نہیں ہوسکتے!
کہ کردہ است در آب صورت گری ؟ یہ کون ہے کہ جس نے پانی پر صورتیں بنائی ہیں ؟
یہ امر قابل توجہ ہے کہ انعقادِ نطفہ کے بعد جبین اپنی پہلی شکل اختیار کرلیتا ہے تو تیزی سے تقسیم و افزائش کے عمل سے گزرتا ہے اور پھر شہ توت کے ایک پھل کی طرح ہوجاتا ہے جس کے چھوٹے چھوٹے دانے ایک دوسرےسے ملے ہوتے ہیں ۔ اسے مرولاکہتے ہیں ۔ عین اِس پیش رفت کے موقع پر خون کا ایک لوتھڑا جسے جفت کہتے ہیں اس کے قریب ارتقائی حالت میں ہوتا ہے ۔ ایک طرف سے جفت دو شر یانوں اور ایک ورید کے ذریعے مال کے دل سے ملا ہوتا ہے اور دوسری طرف بند ناف کے ذریعے جنین سے مربوط ہوتا ہے اور جنین خونِ جفت سے غذا حاصل کرتا ہے کیونکہ غذائی مواد خونِ جفت میں موجود ہوتا ہے ، غذا ملنے، ارتقائی سفر طر کرنے اور خلیوں کا باہر کی طرف رخ کرنے سے مرولا کا اندرونی حصّہ آہستہ آہستہ خالی ہوجاتا ہے جسے بلاسٹولا کہتے ہیں ۔ زیادہ دقت نہیں گزرتا کہ بلاسٹولا کے خلیوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے اب بلا سٹولا دو تہوں والے تھیلے کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔پھر وہ اپنے اندر کی طرف سکڑ نا شروع کردیتا ہے جس کے نتیجے میں بچہ دو حصّوں یعنی سینہ اور شکم میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس مرحلے تک تمام خیلے ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں اور ظاہرا ً ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ اس مرحلے کے بعد جنین کی سورت بنے لگتی ہے اور اس کے اجزاے میں آئندہ انجام پانے والے کاموں کی مناسبت سے تغیر آنے لگتا ہے ۔ نئے تانے بانے بنے لگتے ہیں اور نئی مشینیں حرکت میں آجاتی ہیں اور خیلوں کا ایک ایک گروپ بن کر کسی ایک مشین کو اپنے ذمے لے لیتا ہے ۔ مثلا ً اعصاب کی مشین ، گردش، خون اور معدے کا عمل وغیرہ اس کے نتیجہ میں جنین رحم کے مخفی خانے میں ایک موزوں انسان کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔
تکامل جنین اور ا س کے مختلف مراحل کی تفصیل انشاء اللہ سورہ مومنون کی آیت ۱۲ کے ذیل میں پیش کی جائے گی ۔
ابتدائے سورہ میں جو شان نزول بیان کی گئی ہے اسے نگاہ میں رکھیں تو اس آیت کا مقصدواضح ہوجاتا ہے اس میں حضرت عیسیٰ (ع)کی پیدائش اور عیسائیوں کے عقائد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب خود عیسائی قبول کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (ع)شکم مادر میں پروان چڑھے اور انہوں نے خود اپنے تئیں پیدا نہیں کیالہٰذا وہ کسی پید اکرنے والے کی مخلوق ہیں کہ جس نے عالم رحم میں اس طرح سے ان کی ہئیت و صورت بنائی ہے ۔ اس لئے کیسے ممکن ہے کہ حضرت مسیح (ع) خدا ہوں ۔
”لآ الٰہ الاّ ھو العزیز الحکیم “۔
اس جملے میں تاکید کی گئی ہے کہ حقیقی معبود صرف خدائے قادر و حکیم ہے جو نہ صرف رحم مادر میں پانی کے قطرے پر خوبصورت اور نئی نئی شکلیں بناتا ہے بلکہ اس کی قدرت و حکمت پوری کائنات پر محیط ہے اس یے حضرت مسیح (ع) جیسی مخلوق کو کس طرح معبود قرار دیا جاسکتا ہے وہ مخلوق کہ جو اپنے سارے وجود اور ہستی میں تمام مراحل میں ا س کی قدرت وحکمت کی محتاج ہے ۔
۷۔ھُوَالَّذِی اٴَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ ہُنَّ اٴُمُّ الْکِتَابِ وَاٴُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ فَاٴَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَاٴْوِیلِہِ وَمَا یَعْلَمُ تَاٴْوِیلَہُ إِلاَّ اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِہ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ ٓ اٴُوْلُوا الْاٴَلْبَابِ ۔
ترجمہ
۷۔ وہ ذات وہ ہے کہ جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیات محکم ( صریح اور واضح ) ہیں جو اس کتاب کی بنیادیں ہیں ( اور جو پیچیدگی دیگر آیات میں نظر آئے وہ ان کی طرف رجوع کرنے سے بر طرف ہ وجاتی ہے ) اور کچھ آیات متشابہ ہیں ( یہ وہ آیات ہیں جن میں مختلف احتمالی معانی دکھائی دیتے ہیں لیکن محکم آیات کی تفسیر کی طرف توجہ کرنے سے یہ آیات بھی اہل نظر پر واضح ہوجاتی ہیں )
لیکن جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ انگیزی کرتے رہیں ( اور لوگوں کو گمراہ کریں ) اور اس کی (غلط)تفسیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ان کی تفسیر اللہ اور علم میں راسخ لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور یہ (راسخون فی العلم ) وہی ہیں جو ( فہم و ادراک رہ کھتے ہیں ، تمام آیات قرآنی کے اسرار و رموز سے آگاہ ہیں اور الہٰی علم و دانش کے سبب ) کہتے ہیں کہ ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں ، سب کچھ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے اور دانشمندلوگوں کے سوا کوئی تذکر نہیں کرتا( اور ان کے علاوہ کوئی ادراکِ حقیقت نہیں کرسکتا )

شان نزول

تفسیر نور الثقلین ( نور الثقلین ، ج۱ ، ص ۳۱۳)میں معانی الاخبار کے حوالے سے امام باقر علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے کہ یہودیوں کے چند افراد حی بن احظب اور اس کے بھائی کے ہمراہ پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حروفِ مقطعہ (ال م )کی بنیاد پرکہنے لگے کہ ابجد کے حساب سے الف مساوی ہے ایک کے ، لام برابر ہے ۳۰ کے اور میم مساوی ہے ۴۰ کے ۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ کی امّت کی بقاء کا زمانہ اکہتر برس سے زیادہ نہیں ہے ۔
پیغمبر اسلام ان کے غلط فہمی کے ازالے کے لئے فرمایا:
تم صرف ” الٓمّٓ“ الف لام میم کا حساب کیوں کرتے ہو، کیا قرآن میں ” الٓمٓصٓ “ ” الٓرٰ“ اور دیگر حروف مقطعہ نہیں ہیں ۔ اگر یہ حرف میری امّت کی بقا کی مدت کی طرف اشارہ ہیں تو پھر سب کا حساب کیوں نہیں کرتے ہو( جب کہ ان حروف سے تو کچھ اور مراد ہے ،
بہر حال اس واقعے پر مندر جہ بالا آیت نازل ہوئی ۔
تفسیر ” فی ظلال القراٰن “میں اس آیت کی ایک اور شان نزول بھی منقول ہے جو نتیجے کے اعتبار سے پہلی شان نزول ہیں ہم آہنگ ہے اور وہ یہ ہے کہ نجران کے کچھ عیسائی پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیح (ع) کے بارے میں قرآنی تعبیر ” کلمة اللہ و روحہ “ کو اپنے حق میں دلیل قرار دیا ہے وہ چاہتے تھے کہ اپنے عقیدہ تثلیث اور حضرت عیسیٰ (ع) کے خدا ہونے کے اپنے نظر یے کے لئے اس سے غلط فائدہ اٹھائیں اور ان آیات کو نظر انداز کردیں جو پوری صراحت سے خدا کے لئے ہر قسم کے شریک اور شبیہ کی نفی کرتی ہیں اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی ۔
تفسیر
اس آیت میں محکم و متشابہ آیات کا ذکر ہے اور اس میں اہل ایمان اور بے ایمان لوگوں کے بار ے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ان آیات سے کس طرح وابستگی اختیار کرتے ہیں ۔ آیت کے عمیق اور گہرے مطالب سے آگاہ ہی کے لئے مندرجہ ذیل نکات کا واضح ہونا ضروری ہے ۔ :

 

(۱) محکم و متشابہ آیات سے کیا مراد ہے ۔(4) قرآن کو فرقان کہنے کہ وجہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma