جس میں تمام جہان کی نعمتیں موجود ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 02
اللہ تعالیٰ کی ذات کی یکتائی خود پر ورگار کی شہادت ہے ،۳۔ دنیا کی متاع حیات سے کیامراد ہے

ان میں پہلی آیت انسانی تکامل و ارتقاکے لئے بلندی کی راہوں کو واضح کرتی ہے ۔اسی طرف گذشتہ آیت کے آخر میں اشارہ ہواتھا اس آیت میں فرمایا گیا ہے  کیا تمہیں اس چیز کی خبر دوں جو محدود، مادی اور پست زندگی سے بالا تر اور بہتر ہے وہ جہان اندی کی زندگی ہے جو پرہیزگار اور خود دار افراد کے انتظار میں ہے جس میں تمام جہان کی نعمتیںموجود ہیں لیکن وہ زیادہ کامل صورت میں ہیں اور عیب و نقص سے پاک ہیں ۔
وہاں ایسے باغات ہیں جن کے درختوں کے نیچے اس جہان کے بر عکس پانی بہتا ہے اور منقطع نہیں ہوتا ۔
”جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہَارُ“۔
اس جہان کی نعمتیں تو بہت جلد گذر جاتی ہیں اور ناپائیدار ہیں لیکن وہاں کی نعمتیں ابدی ہیں

( خَالِدِینَ فِیہَا خَالِدِینَ فِیہَا ) اس جہان کی بیویاں یہاں کی حسین عورتوں کے بر عکس جسمانی و روحانی اعتبار سے بہت پاکیزہ ہوں گی اور ان میں کوئی ناپاکی و تیر گی نہیں ہو گی ”وَاٴَزْوَاجٌ مُطَہَّرَة“۔
یہ سب چیزیں پرہیز گاروں کے انتظار میں ہیں اور ان تمام بالاتر معنوی نعمتیں ہیں جو تصورسے ماوراء ہیں جنہیں آیت میں ” وَرِضْوَانٌ مِنْ اللهِ وَاللهُ““

 ( یعنی خوشنودیٴ خدا ) سے تعبیر یا گیا ہے ۔
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ آیت” اوٴُ نبِّئُکم“ سے شروع ہوتی ہے ۔ جس کامعنی ہے ” کیا تمہیں آگاہ کروں “ ایک طرف یہ جملہ استفہامیہ ہے جو انسان کی بیدار فطرت سے جواب طلب کرتا ہے تاکہ سننے والے پر اس کا اثر زیادہ گہرا ہو اور دوسری طرف سے یہ لفظ ” انباء “ کے مادہ سے ہے اور خبر دینے کے معنی میں لیا گیا ہے جو عموماً اہم ترین اور قابل توجہ خبروں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔
درحقیقت قرآن اس آیت میں صاحب ایمان افراد کو خبر دیتا ہے کہ اگر وہ غیر شر عی لذتوں ۔ سر کشی اور گناہ آلود ہوس سے صرف نظر کرلیں تو اس کا معنی لذّت سے محروری نہیں ہوگا کیونکہ وہ راہ سعادت میں جائزلذّت حاصل کر سکنے کے علاوہ دوسرے جہاں کی لذتوں سے بھی بہرہ مند ہوں گے جو اس جہاں کی طرح ہیں لیکن بلند تر بھی ہیں اور پر نقص و عیب سے مبراء بھی ۔
کیا جنت میں مادی لذَّتیں بھی ہیں
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مادی لذتیں اسی دنیا میں منحصر ہیں اور اخروی دنیا میں ان کا نام نشان نہیں ہوگا اور یہ جو آیات ِ قرآنی میں باغات بہشت ، طرح طرح کے پھل اور میووں ، جاری پانی اور بہترین بیویں کا تذکرہ ہے ۔ یہ معنوی مقامات و انعامات کے ایک سلسلے سے کنایہ ہیں اور یہ تعبیر یں ۔ ” کلّم الناس علیٰ قدر عقولھم “۔
یعنی لوگوں سے ان کے فکری معیار کے مطابق بات کرو ، کے مصداق بیان فرمائی گئی ہیں ۔
اس خیال کا جواب یہ ہے کہ جب بہت سی صریح آیاتِ قر آنی کے پیش نظر معاد جسمانی ثابت ہوچکا ہے تو ضروری ہے کہ جسمانی اور روحانی تقاضوں کے مطابق نعمتیں بھی ہوں البتہ ان کی سطح ضرور بلند ہونی چاہئیے اور اتفاق کی بات ہے کہ اس آیت میں دونوں کی نشاندہی کی گئی ہے ، معاد جسمانی کی طرف بھی اشارہ ہے اور روح اور معاد ِ ارواح کی مناسبت سے بھی اشارہ موجود ہے ۔
جو لوگ اس جہان کی تمام نعمتوں کو معنوی نعمتوں کے لئے کنایہ سمجھتے ہیں وہ دراصل آیاتِ قرآنی کے ظاہر ی مفاہیم میں تاویل بھی کرتے ہیں اور وہ معاد جسمانی اور اس کے لوازمات کو بھی بالکل فراموش کیے ہوئے ہیں ۔
” و اللہ بصیرٌ بالعباد“۔ یعنی عنی خدا اپنے بندوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے ، ہوسکتا ہے یہ جملہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ خدا تعالیٰ دوسرے جہان میں انسانی جسم کے تقاضوں سے آگاہ ہے اور وہ ان تقاضوں کو بطریق احسن پورا کرے گا ۔
” الذین یقولون ربّنا انّن“
گذشتہ آیت میں بتا یا گیا تھا کہ پرہیز گار آخرت کی نعمتوں سے مالامال ہیں ، اس آیت میں اور بعد والی آیت میں پر ہیز گار کاروں کا تعارفکرواتے ہوئے ان چھ نمایاں صفات کا ذکر کیا گیا ہے ۔
۱۔ وہ دل و جان سے اپنے پروردگار کی جانب متوجہ ہیں اور ایمان نے ان کا دل روشن کردیا ہے ۔ اسی لئے وہ سختی سے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں اور وہ اپنے گناہوں کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ وہ خدا سے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں اور دوزخ سے نجات کی خواہش کرتے ہیں ” فاغفرلنا ذبوبنا و قنا عذاب النار “۔
۲۔اپنے معاملات میں صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں اور انہیں انجام تک پہنچاتے ہیں ۔ گناہ کو ترک کرتے ہیں اور انفرادی و اجتماعی مشکلات کا سینہ تان کے مقابلہ کرتے ہیں (” الصّابرین “) ۔
۳۔ سچ بولتے ہیں صحیح کردار کے مالک ہیں ، جن چیزوں کا دل سے اعتقاد رکھتے ہیں انہیں پر عمل کرتے ہیں اور وہ نفاق ، جھوٹ، مکرو فریب اور خیانت سے دور رہتے ہیں (” وَالصَّادِقِینَ “) ۔
۴۔ خدا کی بندگی اور عبودیت کی راہ میں ہمیشہ خضوع اور فروتنی سے کام لیتے ہیں ( ”وَالْقَانِتِینَ“) ۔۱
۵۔ مال ہی نہیں بلکہ جو مادی و روحانی نعمتیں انہیں میسر ہیں وہ انہیں راہ ِ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور اس طرح سے اجتماعی و معاشرتی مشکلات اور بیماریوں کا مداوا کرتے ہیں ۔
۶۔ وقت سحر اور آخر شب یعنی جب سکون اور مخصوص صفا و خلوس کا ماحول تمام جگہوں پر محیظ ہو، جب بے خبر لوگ خواب غفلت میں ہوں اور مٹھی نیند سو رہے ہوں ، جب ساری دنیا کا شور و شین خاموش ہو چکا ہو او رمردانِ خدا کے افکار اور زندہ دلوں میں عالم ہستی کی اصلی قدریں نمایاں ہو رہی ہوں وہ یاد خدا کے لئے کھڑے ہ وجاتے ہیں اس کی باعظمت بار گاہ میں استغفار طلب بخشش کرتے ہیں ، پروردگار کے نور و جلال کے پر تو میں محو ہوتے ہیں اور انکے وجود کے سب ذرّے باہم زمزمہٴ توحید گنگار ہے ہوتے ہیں ۔ ( ” وَالْمُسْتَغْفِرِینَ بِالْاٴَسْحَارِ “) ۔
امام صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا :۔
جو شخص نماز وتر میں ۷۰ مرتبہ ” استغفر اللہ ربّی و اتوب الیہ“ پڑھے اور ایک سال تک اس عمل کی پابندی کرے خدا تعالیٰ اسے وقت سحر استغفار کرنے والوں(یعنی (” وَالْمُسْتَغْفِرِینَ بِالْاٴَسْحَار“)، میں سے قرار دے گا اور یقینا اسے اپنی عفو بخشش سے نوازے گا ۔
سحر کیا ہے
سَحَر(” بروزن بشر“ )در اصل” پوشیدہ اور پنہاں ہونے “کے معنی میں ہے ، رات کے آخری حصّے میں چونکہ تمام چیزوں پر ایک خاص قسم کی پوشیدگی غالب آجاتی ہے لہٰذا اس کا نام سحر رکھ دیا گیا ہے ۔
لفظ ”سَحَر“ (بروزن ”شعر“) بھی ایسے مادے سے ہے ۔ ” ساحر“ اور جادو گر چونکہ ایسے کام کرتا ہے جن کے اسرار دوسروں سے پوشیدہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ شب و روز کے اوقات میں سے صرف وقت ” سحر“ کا تذکرہ کیوں ہے جب کہ بار گاہ الہٰی میں ہر حالت میں توبہ و استغفار مطلوب ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سحر وہ وقت ہے کہ جب سکون ، آرام اور خاموشی ہوتی ہے ، مادی کام معطل ہوتے ہیں اور استراحت کے بعد نشاط اور خوشی کا ایک عالم ہوتا ہے یہ صورت حال اور ماحول انسان کو زیادہ سے زیادہ بار گاہِ الہٰی میں توبہ و انابت کے لئے آمادگی بخشتا ہے ۔
تجربے سے اس کیفیت کو کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے یہاں تک کہ بہت سے علماء اور دانشور علمی مسائل کے حل کے لیے اسی وقت سے استغفار کرتے ہیں کیونکہ وقتِ ” سَحَر“ انسانی فکر و روح کا چراغ دیگر اوقات کی نسبت زیادہ روشن اور درخشندہ ہوتا ہے عبادت و استغفار کی روح توجہ اور حضور ِ قلب ہے لہٰذا لمحات سحر میں عبادت و استغفار زیادہ گرانبہا اور عزیز تر ہے ۔

۱۸۔ شَہِدَ اللهُ اٴَنَّہُ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ وَالْمَلاَئِکَةُ وَاٴُوْلُوا الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ۔
ترجمہ
۱۸۔ خدا ( جہانِ ہستی کے اکیلے نظام کو ایجاد کرکے ) گواہی دیتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور فرشتے اور اہل علم و دانش ( سب ایک طرح) گواہی دیتے ہیں ، اس عالم میں کہ ( خدا تعالیٰ عالم ہستی میں ) عدالت قائم کیے ہوئے ہے ( اور یہ عدالت بھی اس کی ذات کی یکتائی کے لئے نشانی ہے ، اس لیے تم بھی ان سب کے ساتھ ہم آواز ہو کر کہوکہ ) اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو کہ غالب و توانا بھی ۔

 


۱ قنت کا معنی خدا کے سامنے خضوع بھی ہے اور طاعت و بندگی میں دوام و استمرار بھی ۔
 
اللہ تعالیٰ کی ذات کی یکتائی خود پر ورگار کی شہادت ہے ،۳۔ دنیا کی متاع حیات سے کیامراد ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma