پیغمبروں کا امتیاز

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 02
حضرت مریم کی ولادت حضرت مریم

پیغمبروں کا امتیاز

یہاں یہ سوال سامنے آتاہے کہ انبیاء کو حاصل ہونے والا ذاتی امتیاز اگر انھیں راہ حق پر چلنے کے لئے مجبو ر نہ کرتا تھا اور یہ امر اختیار اور ارادہ کے مسئلے کے بھی منافی نہیں بہر حال ایک طرح کی تبعیض تو ضرور ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی خلقت جو صحیح نظام سے ہم آہنگ ہو ، اس میں ایسا فرق قابل قبول ہوتا ہے ( غور کیجئے گا ) مثلاً انسانی بدن ایک منظم خلقت ہے اور اس کے نظام کو صحیح رکھنے کے لئے اعضاء و جوارح میں فرق ہونا چاہئیے ورنہ انسانی بدن کے تمام خیلے CELLSٓٓآنکھ کے اندرونی پردوں کی سی نزاکت، پنڈلی کی ہڈی کے خیلوں جیسی طاقت، دماغ کے خیلوں جیسی حساسیت یا دل کے خیلوں جیسی دھڑکن رکھتے ہوتے تو یقینا بدن کی عمارت گر جاتی ۔ ضروری ہے کہ دماغ جیسے خیلے بدن میں ہوں جو جسم کے عضلات او ر اعضاء کی رہبری کی ذمہ داری سنبھالیں ہڈیوں کے محکم خیلوں کو بھی ہونا چاہیئے جو بدن کی استقامت کے ضامن ہوں ، حساس خیلے بھی چاہیں جو چھوٹے چھوٹے حوادث سے آگاہ ہوں اور متحرک خیلے بھی درکار ہیں جو حرکت پیدا کریں ۔
کوئی شخص نہیں کہتا کہ تمام جسم و دماغ اور مغز کیوں نہیں یا مثلاً گھاس کے خیلے پھول پتوں کی سی نزاکت ، لطافت اور زیبائی کیوں نہیں رکھتے کیونکہ یہ کیفیت تو گھاس کی ساخت کو ہی ختم کردیتی ۔
قابل توجہ نکتہ یہاں یہ ہے کہ ذاتی امتیاز جو ایک منظم نظام کے لئے انتہائی ضروری ہے ، آسان اکم نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک بھاری ذمہ داری اور مسئولیت منسلک ہے جو اتنی ہی عظیم ہے جس قدر یہ امتیاز زیادہ ہے ، یہ بھاری ذمہ داری خلقت کے ترازوکے دونوں پلڑوں میں اعتدال بر قرار رکھتی ہے یعنی جس قدر پیغمبر اور ہادی نوع بشر سے امتیازرکھتے ہیں اسی قدرذمہ داری اور مسئولیت بھی رکھتے ہیں اور دوسروں کی ذمہ داری بھی اپنے امتیاز کے لحاظ سے کم ہے ۔
علاوہ از این بار گاہ الہٰی میں تقرب کے لئے انسان کے ذاتی امتیازات ہ رگز کافی نہیں بلکہ انہیں اکتسابی امتیازات کے ہمراہ ہونا چاہئیے ۔

چند اہم نکات

(۱) آل ابراہیم : آیت خدا کے تمام بر گزیدہ بندوں کا ذک رنہیں کررہی بلکہ ان میں سے صرف بعض کی طرف اشارہ کر رہی ہے لہٰذا اگر بعض انبیاء جو مذکورہ خاندانوں سے نہیں ، یہ آیت ان کے بر گزیدہ نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے ۔
ساتھ یہ بھی توجہ رہے کہ آل ابراہیم میں موسیٰ (ع) بن عمران (ع) ، پیغمبر اسلام اور آپ کے خاندان کے بر گزیدہ افراد بھی شامل ہیں کیونکہ وہ سب اولاد ابراہیم میں سے ہیں ۔
۲۔ لفظ آل ” کا مفہوم “ مفردات میں راغب نے لکھا ہے کہ ” اٰل “ ” اہل “ سے لیا گیا ہے اور فرق یہ ہے کہ ” اٰل “ عام طور پر بزرگ اور شریف افراد کے نزدیکی رشتہ داروں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور ”اہل “زیادہ وسیع معنی نہیں رکھتا ہے اور سب کے لئے بولا جاتا ہے ، اسی طرح ” آل “ کی اضافت انسانوں کے لئے ہوتی ہے لیکن ” اہل ُ کی اضافت زمان و مکان اور دوسری ہر طرح کی چیزوں کے لئے مستعمل ہے ۔ مثلاً کہتے ہیں ” اہل شہر “ لیکن ” آل شہر “ کہتے ۔
۳۔ آل عمران اور آل ابراہیم کے مفہوم کی حدود:
بغیر کہے ہی واضح ہے کہ آل ابراہیم اور آ ل عمران کو چن لینے سے یہ مراد نہیں کہ ابراہیم اور عمران کی ساری اولاد برگزیدہ ہے کیونہ ممکن ہے ان کی اولاد میں کفارتک موجودہوں بلکہ اس سے مراد ان کے خاندان او ر دود مان سے کچھ برگزیدہ ہستیاں ہیں ۔
۴۔ عمرا ن کون ہیں :
مندرجہ آیت میں مذکور ” عمران“ حضرت مریم کے باپ ہیں حضرت موسیٰ کے والد نہیں کیونکہ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی عمران کا نام آیاہے وہاں حضرت مریم کے والد ماجد ہی مراد ہیں بعد کی آیات جوحضرت مریم کے حالات کے بارے میں ہیں وہ بھی اس بات کی شاہد ہیں ۔
۵۔ عصمت انبیاء اور آئمہ دلیل :
اہل بیت علیہم السلام کے حوالے سے پہنچنے والی متعددروایات ، میں اس آیت سے انبیاء اور آئمہ کی عصمت پر استدلال کیاگیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کبھی بھی گناہ ، شرک ، کفر اور فسق سے آلودہ افراد کو منتخب نہیں کرتا بلکہ ایسے لوگوں کو منتخب کرتا ہے جو آلودگیوں سے کنارہ کش اور معصوم ہوں ۔ البتہ آیت سے عصمت کے متعدد مراحل بھی معلوم ہوتے ہیں ۔
۶۔ تکامل انواع پر استدلال :
ماضی قریب کے بعض موٴلفین نے اس آیت سے تکامل انواع پر استدلال کیا ہے ۔ ان نظر یہ ہے کہ حضرت” آدم “اول بشر نہ تھے بلکہ ان کے زمانے میں بہت سے انسان موجود تھے جن میں سے خدا تعالیٰ نے حضرت آدم (ع) کو منتخب فرمالیا اور ان کی اولاد میں سے ممتاز نسل کو وجود بخشا اس نظریہ کے حامل ” علی العالمین “ کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت آدم (ع) کے دو ر میں ”عالمین “یعنی ” انسانی معاشرہ “ موجود تھا اس لئے اس بناء پر یہ ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ پہلا انسان لاکھوں سال قبل پیدا ہوا ، وہ بھی باقی حیوانات کی طرح ارتقاء اور تکامل کی منزلیں طے کرتا رہا اس لئے آدم(ع) ایک بر گزیدہ انسان تھے ۔
اس گفتگوکے مقابلہ میںکہا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں کہ جس کی وجہ سے ہم یہ سمجھیں کہ ” عالمین“ سے مراد یہاں حضرت آدم (ع) کے ہم عصر انسان تھے بلکہ ممکن ہے عالمین سے مرادیہاں تمام انسانی ادوار کے انسان ہوں ۔ اس بناء پر آیت کا معنی یہ ہوگا : خدا نے تمام انسانی معاشروں میں انسانوں کی طویل تاریخ میں سے جنہیں منتخب فرمایااس میں پہلے آدم (ع)، پھر نوح(ع) ،پھر آل ابراہیم “ اور” آل عمران “ ہیں چونکہ یہ سب منتخب افراد مختلف زمانوں میں تھے اس سے ہم سمجھے کہ عالمین سے مراد تمام زمانوں اور ادوار کا انسانی معاشرہ ہے ۔ اس سے ضروری نہیں کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ حضرت آدم (ع) کے زمانے میں بہت سے انسان موجود تھے جن میں سے حضرت آدم (ع) چنے گئے تھے( غور کیجئے گا)
ذرّیة بعضھا من بعض“
”ذریت“ کا معنی ہے ”چھوٹی اولاد ۔ لیکن کبھی کبھی بلا واسطہ یا بالواسطہ کی تمام اولاد کے لئے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۱
اس آیت میںقرآن اس بات کی طرف اشا رہ کرتا ہے کہ یہ منتخب افراد ، اسلام ،پاکیزگی ، تقویٰ اور نوع بشر کی راہنمائی کے لئے کوشش کے لحاظ سے ایک جیسے تھے اور ایک ہی کتاب کے مختلف نسخوں کی مانند تھے جیسے ان میں سے ایک دوسرے کا اقتباس لیا گیا ہو” بعضھا من بعض“وَاللّہُ سمیعٌ العلیم “
آیت کے آخر میں اس بات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی کوشش اور فعالیت دیکھنا ہے ، ان کی باتیں سنتا ہے اور ان کے اعمال سے آگاہ ہے ، اس جملے میں چنے ہوئے افراد کی خدا تعالیٰ اور مخلوق خدا کے بارے میں شدید ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
ضمنی طور پر آیت حضرت آدم (ع) کے علاوہ اوالعزم پیغمبروں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کیونکہ حضرت نوح کا ذکر تو صراحت سے موجودہے اور آل ابراہیم میں خود ابراہیم ، موسیٰ (ع) عیسیٰ (ع) اور پیغمبراسلام بھی شامل ہیں ، نیز آل عمران میں حضرت مریم (ع) اور حضرت مسیح(ع) کی طرف مکرّر اشارہ ہے ۔ اس تکرار کی وجہ یہ ہے کہ زیر نظر آیت ان کے حالات کی تفصیل کے لئے مقدمے کی حیثیت رکھتی ہے ۔

۳۵۔ إِذْ قَالَتْ امْرَاٴَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّی نَذَرْتُ لَکَ مَا فِی بَطْنِی مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّی إِنَّکَ اٴَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ۔
۳۶ ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْہَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّی وَضَعْتُہَا اٴُنْثَی وَاللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَاللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاٴُنْثَی وَإِنِّی سَمَّیْتُہَا مَرْیَمَ وَإِنِّی اٴُعِیذُہَا بِکَ وَذُرِّیَّتَہَا مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ ۔
ترجمہ
۳۵۔ ( وہ وقت یاد کرو ) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا : خداوندا! جو کچھ میرے رحم میں ہے میں اسے تیری نذر کرتی ہوں تاکہ وہ (تیرے گھر کی خدمت کے لئے ) محرّر ( اور آزاد) ہو اور تو یہ مجھ سے قبول فرمالے کہ تو سننے اور جاننے والا ہے ۔
۳۶۔ لیکن جب اسے جنم دیا تو دیکھا کہ وہ لڑکی تھی ) عرض کیا : خدا وندا ! میں لڑکی کو جنم دیا لیکن خدا اس سے آگاہ تھا کہ اس نے کیا جنم دیا ہے (پھر اس نے کہا ) لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا ( اور لڑکی عبادت گاہ کی خدمت کی ذمہ داری لڑکے کی طرح انجام نہیں دے سکتی ) اور میں نے اس کانام مریم رکھا ہے اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود( کے وسوسوں) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔

  


۱ ” ذریّة کا مادہ ” ذرہ “ بروزن (ہمّہ )ہے اور اس کا معنی ہے آفرینش اور خلق کرنا ۔
 
حضرت مریم کی ولادت حضرت مریم
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma