آیت کہتی ہے کہ مسیح (علیه السلام) کے بارے میں قرآن کے منطقی دلائل کے باوجود اور دعوتِ مباہلہ کے بعد بھی اگر وہ حق کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھتے ہیں تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ طالب حق نہیں بلکہ ناروا تعصبات ، سر کشی ، ہو او ہس اور اندھی تقلید میں گرفتار ہیں اور ان کا کام بہر صورت معاشرے میں فساد پیدا کرنا ہے ۔
حقیقت یہی ہے کہ جو گروہ حق کے واضح ہونے جانے کے باوجود اپنی ڈھٹھائی ترک نہیں کرتا وہ حق کا متلاشی نہیں ہوسکتا بلکہ وہ طالبِ فساد ہے اور کا مقصدلوگوں کے صحیح عقائد کی بنیادوں کو کھوکھلا اور خراب کرنا ہے ۔
۶۴ قُلْ یَااٴَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلَی کَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اٴَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللهَ وَلاَنُشْرِکَ بِہِ شَیْئًا وَلاَیَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اٴَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْہَدُوا بِاٴَنَّا مُسْلِمُونَ۔
ترجمہ
۶۴۔ کہیے: اہل کتاب ! اوٴ ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ سوائے خدائے یگانہ کے کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو ا سکا شریک قرار نہ دیں اور ہم میں سے بعض خدا کو چھوڑ کر بعض دوسروں کو خدا کے طور پر قبول نہ کریں ، جب (وہ اس دعوت سے )روگردانی کریں تو کہیے: گواہ رہو کہ ہم تو مسلمان ہیں ۔