ایک اور تباہ کن سازش

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 02
پرانی سازشیں کیوں حق و باطل کو ایک دوسرے سے ملادیتے ہیں

مندرجہ بالا آیت یہود یوں کی ایک اور تباہ کن سازش سے پردہ آٹھاتی ہے اور نشاندہی کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کا ایمان متزلزل کرنے کے لئے ہر ذریعہ استعمال کرتے تھے ۔ ایک گروہ کے اراکین ، جنہیں قرآن نے ” طآئفةٌ مّن اہل الکتاب “کہا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے : آوٴ اور جو کچھ مسلمانوں پر نازل ہوا ہے دن کے آغاز میں اس پر ایمان لے آئیں اور دن کےآخر میں اس سے پلٹ آئیں ۔ بعید نہیں کہ دن کے آغاز و اختتام سے مراد اتنی کم مدت ہ وکہ لوگ کہہ سکیں کہ وہ اسلام کو دور سے کچھ اور سمجھتے تھے لیکن نزدیک سے کچھ اور پایا ہے ۔ اس لئے بہت ہی جلد پلٹ آئے ہیں ان کا خیال تھا کہ یہ سازش یقینی طور پر ضعیف الاعتقاد لوگوں پ رکافی اثر کرے گی خصوصاً اس لحاظ سے کہ وہ لوگ علماء یہود میں سے ہیں اور سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ آسمانی کتابوں اور آخری پیغمبر کی نشانیوں سے پوری واقفیت رکھتے ہیں ان کا خیال تھا کہ ایمان و کفر کم از کم نئے مسلمانوں کے اعتقاد کی بنیادیں تو ضرور ہلادے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنی ماہرانہ سازش کی کامیابی کی بہت امید تھی اور ” لعلھم یر جعون “ ان کی اسی امید کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔
” ولا یوٴ منوآ الاّ لمن تبع دینکم ۔“
انہوں تاکید کی ہے تمہارا ایمان فقط ظاہری ہونا چاہئیے اور تمہارا رشتہ صرف اپنے دین کے پیرو کاروں سے ہونا چاہئیے ۔ بعض تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ خیبر کے یہودیوں نے مدینہ کے یہودیوں کو وصیت کی تھی کہ کہیں ایسانہ ہو کہ تم ان لوگوں کے زیر اثر آجاوٴ جو پیغمبر اسلام کے زیادہ قریب ہیں اور ان پر ایمان لے آوٴ کیونکہ ان کا عقیدہ اور نظریہ تھا کہ نبوت صرف نسل یہود میں رہے گی اور کوئی پیغمبر ظہور کرے تو اسے یہودیوں میں سے ہونا چاہئیے ۔
بعض مفسرین نے ” لاتوٴ منوا“ کو ” ایمان “ کے مادہ سے اعتماد و اطمنان “ کے معنی میں لیا ہے ، کیونکہ لغوی طور بھی اس کا یہی معنی ہے ۔ اس بناء پر مندرجہ بالا جملے کا مفہوم یہ ہوا کہ یہ سازش بالکل مخفی ہونا چاہئیے اسے سوائے یہودیوں کے یہاں تک کہ مشرکوں سے بھی بیان نہ کرو تاکہ راز فاش نہ ہوجائے اور یہ پروگرام نقش بر آب ہوکر نہ رہ جائے ۔ مندرجہ بالا آیت کے ذریعے خدا تعالیٰ نے یہودیوں کی اس خفیہ سازش سے پردہ اٹھا کر انہیں رسوا کیا تاکہ مومنین کے لئے بھی یہ درس عبرت ہو اور مخالفین کے لئے بھی ذریعہ ہدایت بنے ۔
” قل انّ الھدیٰ ھدی اللہ “
یہ جملہ اصطلاح میں ایک جملہٴ معترضہ ہے جو پروردگار کی طرف سے ہے جب کہ اس سے پہلے اور بعد والے جملے میں یہودیوں کی گفتگو نقل کی گئی ہے 
یہودیوں کی گفتگو کے درمیان زیر نظر جملے میں خدا تعالیٰ نے انہیں ایک مختصر اورجامع جواب دیا ہے کہ ہدایت تو خدا کی طرف سے ہے اور وہ کسی خاص نسل اور قوم میں منحصر نہیں ہے اور کوئی ضروری نہیں کہ پیغمبر صرف یہود میں سے ہو ۔
دوسری بات یہ ہے کہ جنہیں پروردگار کی ہر قسم کی ہدایت میسر ہے وہ ان سازشوں سے متزلزل نہیں ہوں گے اور یہ تخریبی منصوبے ان پر انداز نہیں ہوسکتے ۔
”اٴَنْ یُؤْتَی اٴَحَدٌ مِثْلَ مَا اٴُوتِیتُمْ اٴَوْ یُحَاجُّوکُمْ عِنْدَ رَبِّکُمْ“
یہ یہودیوں کی گفتگو کا آخری حصہ ہے ۔ اس جملے کی ابتدء میں ولاتصدقوا( اعتراف اور اعتماد نہ کر) مقدر ہے ۔ ۱
۱اگر گذشتہ حصے میں ” لاتوٴمنوا“ ( اطمنان نہ کرو ) کے معنی میں ہو تو ” ”اٴَنْ یُؤْتَی اٴَحَدٌ مِثْلَ مَا اٴُوتِیتُمْ اٴَوْ یُحَاجُّوکُمْ عِنْدَ رَبِّکُمْ“کے دونوں ہوسکتا ہے اس پر معطوف ہوں ۔
اس بناء پر اس جملے کا معنی یہ ہوگا کہ کبھی یہ باور نہ کرو ساری دنیا کے لوگوں میں سے کوئی شخص وہ افتخار اور امتیاز اور آسمانی کتب جو تمہیں نصیب ہیں ، لے سکے گا اور یہ بھی باور نہ کرو کہ کوئی شخص روز قیامت در گاہ ِ خدا وندی میں تم سے مباحثہ اور گفتگو کرکے تمہیں مغلوب کرسکے گا کیونکہ تم دنیا کی بہترین قوم اور خاندان ہو نیز نبوت، عقل ، درایت ، منطق اور استدلال صرف تمہارے پاس ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہودی اس فضول منطق کے ذریعے خدا سے اپنا رتباط ظاہر کرتے اور تمام قوموں سے اپنے تئیں بر تر سمجھتے تھے اسی لئے بعد والے جملے میں خدا تعالیٰ نے انہیں صراحت سے جواب دیا ہے ۔
” قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللهِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ۔“
کیئے کہ مقام نبوت ہو ، عقلی و منطقی استدلال ہو کا کوئی اور امتیاز ، سب فضل و عطا کی طرف سے ہے وہ جسے چاہتا ہے اور اہل سمجھتا ہے است نوازتا ہے ۔ کسی نے اس سے عہد و پیمان نہیں لے رکھا اور نہ ہی اس سے کوئی قرابت یا رشتہ داری رکھتا ہے اس کا جود و عطا واسع ہے اور استحقاق کے مواقع سے وہ علیم و آگاہ ہے ۔
”یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہِ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ “َ
اس آیت میں بھی گذشتہ بحث کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : خدا جسے چاہتا ہے اور اہل سمجھتا ہے اپنی مخصوص رحمتوں سے نوازتا ہے

 ( اور مقام نبوت و منصب رہبری بھی اس کی رحمتوں میں سے ہیں ) اور کوئی شخص انہیں محدود نہیں کرسکتا اور ہر حالت میں عنایات ، عطیات اور فضل عظیم اسی کی طرف سے ہے ۔

پرانی سازشیں کیوں حق و باطل کو ایک دوسرے سے ملادیتے ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma